نئی علاقائی صف بندی میں طالبان اور امریکا کہاں کھڑے ہیں؟
11 ستمبر کے حملوں کو 20 سال مکمل ہونے پر امریکا میں یادگاری تقریبات ہورہی تھیں تو دوسری جانب کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کی تقریب حلف برداری کا پروگرام اچانک منسوخ کردیا گیا۔ 5 ملکوں کو دعوت نامے بھجوانے کے بعد طالبان نے اعلان کیا کہ حکومتی عہدیداروں نے کام شروع کردیا ہے اور افغان عوام کو مزید الجھاؤ کا شکار رکھنے کے بجائے مستقبل پر توجہ دی جائے گی۔
افغان طالبان نے تقریب حلف برداری منسوخ کی تو کئی لوگ حیران ہوئے کہ ایسا کیوں ہوا؟ حالانکہ اس کا صاف اور واضح جواب روس کے صدارتی محل نے دے دیا تھا کہ اس حکومت کی تقریب حلف برداری میں کسی بھی سطح پر نمائندگی نہیں کی جائے گی۔ روس کے اعلان سے واضح تھا کہ علاقائی طاقتیں فوری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کرنا چاہتیں اور یہ فیصلہ باہمی رابطوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔
اب جبکہ طالبان حکومت نے کام شروع کردیا ہے اور قطر کے وزیرِ خارجہ نے پہلے غیر ملکی رہنما کے طور پر کابل کا دورہ کیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ طالبان کو یقین دہانیاں کروانے کے باوجود کسی بھی ملک نے انہیں تسلیم کرنے کا فوری اعلان نہیں کیا؟ ماسکو، بیجنگ اور انقرہ کیا سوچ رہے ہیں؟ امریکا رسوائی کے ساتھ فوجی انخلا کے بعد اس خطے سے متعلق کیا عزائم رکھتا ہے؟ کیا امریکا پہلے کی طرح پاکستان اور خطے کو تنہا چھوڑ کر نکل جائے گا؟ مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے ہمیں ہر ملک کے ردِعمل، پالیسی اور عزائم کا الگ الگ جائزہ لینا پڑے گا۔
پہلے بات کرتے ہیں سب سے بڑے علاقائی کھلاڑی چین کی۔ پچھلے 10 سال کے دوران افغان طالبان کے ساتھ اچھے مراسم استوار کرنے والے چین نے اشرف غنی کے فرار سے پہلے دونوں فریقین کے ساتھ متوازن تعلقات کی پالیسی اپنائے رکھی تھی۔ اگرچہ 28 جولائی کو ملا عبدالغنی برادر کی چینی وزیرِ خارجہ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی لیکن چین کو امریکا کے اتحادی اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مراسم میں کوئی دشواری نہیں تھی۔
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد چین نے غیر معمولی سطح کا مثبت ردِعمل دیا۔ ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ وفود کی سطح پر ملاقات کے موقع پر چین کے وزیرِ خارجہ نے طالبان کو افغانستان کی سیاسی اور عسکری قوت قرار دیا تھا۔
18 جولائی کو چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سوال پر کہا تھا کہ جب تک حکومت بن نہیں جاتی اس وقت تک اس کے جواب کا انتظار کیا جائے۔ ایک دن بعد چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے طالبان کے اچھے، مثبت اور حقیقت پسندانہ رویے کی تعریف کی اور بین الاقوامی برادری سے کہا کہ وہ طالبان سے متعلق دقیانوسی تصورات کو ترک کردے۔
بیجنگ کے ردِعمل سے لگتا ہے کہ وہ افغانستان اور طالبان سے متعلق ابتدائی جائزے پر پہنچ کر دو نتائج اخذ کرچکا ہے۔ ان میں سے پہلا نتیجہ طالبان کی فتح اور اس فتح کی پائیداری سے متعلق ہے۔ افغانستان میں پنجشیر سمیت کہیں کہیں چھوٹی موٹی مزاحمت نظر آتی ہے لیکن چین اس مزاحمت کو طالبان کے لیے بڑا سیاسی چیلنج تصور نہیں کر رہا۔ دوسرا نتیجہ طالبان کے رویے میں بہتری سے متعلق ہے۔ چین کا خیال ہے کہ طالبان اب زیادہ عقلیت اور حقیقت پسند ہوگئے ہیں، اس نتیجے کی بنیاد طالبان کی سفارتکاری اور حالیہ وعدے ہیں۔
ان دو نتائج کی بنیاد پر بیجنگ کی پالیسی اور بیانات مرتب کیے گئے ہیں، یعنی بیجنگ یہ سمجھتا ہے کہ طالبان اب زیادہ عرصے کے لیے آئے ہیں اور ان کا رویہ 20 سال پہلے کی نسبت بہت زیادہ بدل گیا ہے۔ اگر ان نتائج کی بنیاد پر پالیسی بنائی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ چین طالبان کو شک کا فائدہ دے گا اور جب تک طالبان کوئی بڑی غلطی نہیں کرتے ان کی تائید کرے گا۔
11 ستمبر کے حملوں کو 20 سال مکمل ہونے پر چینی میڈیا کے تبصروں اور کارٹونز میں جو کچھ کہا گیا وہ چین کی پالیسی کا عکاس ہے۔ ان تبصروں میں امریکی صدور کے تضادات نمایاں کیے اور امریکا کی وار آن ٹیرر سے پیدا ہونے والے انسانی المیوں کو اجاگر کیا گیا۔ یہی بیجنگ کا سیاسی مؤقف ہے اور بیجنگ اب افغانستان میں یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ جنگ کے ذریعے یا کسی ملک میں اپنا سیاسی ماڈل مسلط کرنے سے تبدیلی نہیں آتی۔ تبدیلی کا واحد راستہ معاشی تعاون ہے اور چین بیلٹ اینڈ روڈ وژن کے ساتھ دنیا کی بہتری اور قیادت کے لیے تیار ہے۔