یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی۔
ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے خلاف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ دیگر اقسام سے کیا گیا۔
اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات کا موازنہ ایسے 18 افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا، جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی یا وہ کووڈ 19 کا شکار رہ چکے تھے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر تمام اقسام بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔
بیٹا کورونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار دیا جاتا ہے۔
مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔
دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف 18 افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسینیشن کرانے والوں یا اس بیماری کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے میں مدد مل سکے گی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر اقسام کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔
اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسینیشن (فائزر/بائیو این ٹیک ویکسین) سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف 7.6 گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج پری پرنٹ سرور bioRxiv میں شائع ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی اس نئی قسم مو (Mu) یا بی 1.621 کو 30 اگست کو مانیٹرنگ لسٹ کا حصہ اس وقت بنایا جب یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ نئی قسم ویکسنیشن یا بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خلاف جزوی مزاحمت کرسکتی ہے۔
اب تک یہ نئی قسم دنیا کے 44 ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔