نقطہ نظر

کرکٹ کو بارش سے کیسے بچایا جائے؟

کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والا ہر شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ کھیل خود کو درپیش مشکلات سے جس طرح نمٹتا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے۔

مائیک مارکسی نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب Anyone But England میں لکھا کہ ایک پھرپور اور سخت کھیل ہونے کے باوجود کرکٹ میں بہت حد تک کشادگی پائی جاتی ہے۔ کچھ ہی کھیل ایسے ہیں جن میں اس حد تک نئے فارمیٹ متعارف ہوئے ہیں اور جن کے قوانین اتنے تبدیل ہوئے ہیں۔ کرکٹ نے دیگر کھیلوں کے مقابلے ایک دہائی قبل اور فٹبال کے مقابلے ربع صدی قبل پہلی مرتبہ ٹیلی ویژن کو لائن ڈیسیشن کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس وقت کسی دوسرے کھیل میں بال ٹریکنگ یا اسنیکومیٹر کا متبادل موجود نہیں ہے۔ دیگر کھیلوں میں یہ ٹیکنالوجی موجود تو ہے لیکن اسے امپائر اور ریفری کے فیصلوں کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

لیکن اس تمام جدت کے باوجود کرکٹ کے لیے ایک مشکل اب بھی برقرار ہے اور وہ ہے بارش کا ہونا۔

ہمیں معلوم ہے کرکٹ کے بڑے اسٹیڈیم اور غریب گورننگ باڈیز کے لیے کھلنے اور بند ہونے والی چھتیں بنانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن کرکٹ اور بارش کا مسئلہ ٹیکنالوجی سے زیادہ ذہنیت کا ہے۔

مثال کے طور بارش رکنے کے بعد کھیل دوبارہ شروع کرنے کے مراحل کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہ پورا عمل ہی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ تو آئیے ان مراحل کو دیکھتے ہیں۔

پہلا مرحلہ

پہلا مرحلہ جسے شاید آپ ایک باقاعدہ مرحلہ نہ سمجھیں لیکن وہ بارش کا مکمل طور پر رکنا ہے۔ یاد رہے کہ جب کھلاڑی میدان میں موجود ہوتے ہیں تو ہلکی پھلکی رم جھم کھیل میں رکاوٹ نہیں بنتی لیکن اگر ایک مرتبہ کھیل روک دیا جائے تو صورتحال بدل جاتی ہے اور اس وقت وہی رم جھم ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ کوئی بھی ہو لیکن امپائر اس وقت تک کھیل دوبارہ شروع کرنے کا اشارہ نہیں کرتے جب تک بارش مکمل طور پر رک نہ جائے۔

دوسرا مرحلہ

دوسرے مرحلے میں گراؤنڈ اسٹاف کو کور ہٹانے ہوتے ہیں۔ اب میزبان ملک کے جی ڈی پی کے مطابق وہ درمیانی عمر کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو جرمن گولف کارٹ چلا رہے ہوں یا پھر خوراک کی کمی کا شکار بچے بھی ہوسکتے ہیں جو ہاتھوں سے ہی سارا کام کر رہے ہوں۔ یہ کام دیکھنے میں جتنا آسان لگتا ہے، اتنا ہوتا نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ بارش ہونے کے بعد کورز کا وزن بہت بڑھ جاتا ہے۔ پھر گراؤنڈ اسٹاف کو کوشش کرنی ہوتی ہے کورز پر موجود پانی کھیل کی جگہ پر نہ گرے۔ یہ ایک ایسا کام تھا جو پاکستان کے حالیہ ٹیسٹ کے دوران سبینا پارک کے گراؤنڈ اسٹاف کے بس سے باہر تھا۔

تیسرا مرحلہ

تیسرے مرحلے میں امپائرز ایک انسپیکشن یا جانچ طے کرتے ہیں۔ یہ جانچ عموماً بارش رکنے کے بہت دیر بعد کی جاتی ہے۔ شاید اتنی دیر میں تو ٹینس کا کوئی بہترین کھلاڑی گرینڈ سلام ٹینس کا ابتدائی راؤنڈ جیت لیتا ہو۔

چوتھا مرحلہ

چوتھے مرحلے میں امپائرز وہ انسپیکشن انجام دیتے ہیں۔ اس کے سائنٹفک نام سے قطع نظر یہ گراؤنڈ میں چہل قدمی کرنے، جگہ جگہ ایڑیاں مارنے اور ایک دوسرے سے یہ پوچھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ ’تو کیا خیال ہے تمہارا؟‘

پانچواں مرحلہ

پانچویں مرحلے کا انحصار اوپر پوچھے گئے سوال کے جواب پر ہے۔ یا تو امپائرز کھیل دوبارہ شروع کرنے کا وقت طے کریں گے جو بہت دیر بعد کا ہی ہوگا یا پھر وہ دوبارہ تیسرے مرحلے پر چلے جائیں گے۔ اور اگر ان میں سے کسی بھی مرحلے کے دوران دوبارہ بارش شروع ہوجاتی ہے تو سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح سارا عمل پھر پہلے مرحلے سے شروع ہوتا ہے۔

سچ کہوں تو یہ سارا عمل سمجھ سے باہر ہے۔ جب اس طرح کے طریقے ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں تو ایڈمنسٹریٹرز کو کرکٹ کے مالی استحکام کے بارے میں شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

یہ کالم اسی حوالے سے مدد کرنے کے لیے ہے۔ شاید نیچے دی گئی کچھ تجاویز ناقابلِ عمل ضرور لگیں لیکن ان کے پیچھے نیت اچھی ہے۔ میں بنیاد پرست اور انقلابی عقیدہ رکھتا ہوں کہ اگر بارش نہیں ہورہی ہے اور میچ طے ہے تو بس پھر کرکٹ لازمی کھیلی جانی چاہیے۔ آپ چاہیں تو مجھے پاگل کہہ سکتے ہیں۔

میری مایوسی کی ایک وجہ ذاتی تجربہ بھی ہے۔ پچھلے مہینے، میں نے گیانا کے بدترین دورے پر 8 دن اور ناقابلِ بیان رقم ضائع کی۔ میرے دورے کے پیچھے کچھ اس قسم کی منطق تھیں کہ ’ہر کسی کو وبا کے بعد چھٹی منانے کا حق ہے‘ (یہ بالکل سچ نہیں ہے)، ’اگر کرکٹ نہ بھی ہو تو مجھے یقین ہے کہ گیانا پھر بھی ایک بہترین تفریح ہوگی‘ (یقینی طور پر یہ سچ نہیں تھا) اور ’4 دن تک بارش ہونے کا تو کوئی امکان ہی نہیں ہے‘ (یہ سچ تھا کیونکہ بارش 7 دن تک ہوئی)۔

ظاہر ہے کہ میرے پاس جارج ٹاؤن کی بہت سے یادیں ہیں جن میں مختلف ذرائع سے تحفے میں ملنے والے ٹکٹ، پانی اور اوریو، ڈاؤن ٹاؤن کا منی چینجر جو بابر اعظم کی خوب تعریفیں کر رہا تھا اور گراؤنڈ میں موجود شائقین کے ساتھ کیا جانے والا ہنسی مذاق بھی شامل ہے۔

لیکن یہ سب اس وقت کی بات ہے جب کرکٹ ہورہی تھی۔ بدقسمتی سے اس ملک سے جڑی میری یاد وہ 2 امپائرز ہیں جنہوں نے یونانی فلسفیوں کی طرح میدان میں چہل قدمی کرتے ہوئے خشک موسم کے 90 منٹ ضائع کردیے اور پھر انہوں نے میچ کے دوبارہ شروع ہونے کا جو وقت طے کیا ٹھیک اسی وقت بارش دوبارہ شروع ہوگئی۔ بعد ازاں دوپہر 2 بجے کے ’کٹ آف‘ کی وجہ سے کھیل ختم کردیا گیا، اور اس کے بعد سارا دن دھوپ نکلی رہی۔

اگر بارش کے ساتھ آپ کا تجربہ اتنا بُرا نہ بھی ہو جتنا میرا ہے تو پھر بھی کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والا ہر شخص اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ کھیل خود کو درپیش مشکلات سے جس انداز میں نمٹتا ہے وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ ہمیں اس میں مزید بہتری لانی ہوگی اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کرکٹ سے دُور رہنے والوں (جیسے امریکیوں اور چینیوں) کو کرکٹ کے قریب لایا جائے بلکہ اس لیے کہ جو لوگ پہلے ہی کرکٹ کے قریب ہیں کہیں وہ اس کھیل کو ترک نہ کردیں۔


یہ مضمون 12 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

احسن بٹ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔