بلتستان کی ان 3 جھیلوں کا سفر شاید ہی آپ نے کیا ہو
بلتستان کو وقت گزرنے کے ساتھ سیر و سیاحت میں خاص پذیرائی ملتی جارہی ہے۔ بلتستان کا مطلب چھوٹا تبت کے ہیں، شاید یہ نام اس وجہ سے پڑا ہوگا کہ بلتستان کی سطح سمندر سے عموماً اونچائی 10 ہزار فٹ ہے۔ اس وقت بلتستان کا صدر مقام اسکردو ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ تقسیمِ ہند سے پہلے موسمِ گرما میں صدر مقام لداخ جبکہ موسمِ سرما میں صدر مقام اسکردو ہوا کرتا تھا۔
سیاحت کے اعتبار سے مشہور اضلاع گانچھے، شگر اور گھرمنگ ہیں۔ یہاں بہتے دریاؤں کی بات کریں تو دریائے سندھ ضلع گھرمنگ، دریائے سیوک ضلع گانچھے اور بالتورو اور بیافو گلیشیئرز سے جنم لینے والا دریائے شگر ضلع شگر کے وسط میں سے گزرتا ہے۔
خطہ بلتستان میں 20 سے زائد ایسی چوٹیاں بھی ہیں جن کی بلندی 20 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ کے ٹو، براڈ بیک، کے ون، ہیڈن پیک، میشابرم 7 سے 8 ہزار میٹر کی ایسی چوٹیاں ہیں جن پر چڑھنا ہر اچھے کوہ پیما کا خواب ہوتا ہے۔
ٹریکرز اور موٹر سائیکلسٹ کے لیے بلتستان کا علاقہ کسی جنت سے کم نہیں۔ ایک وادی سے دوسری وادی میں ٹریکنگ کرنے کے لیے گانچھے لا (غندوس سے خپلو)، شیلا لا (دیوسائی سے شیلا)، گونڈوگورو لا (ہوشے سے کانڈکورڈیا) اور تھلے لا (خپلو سے شگر) بہت مشہور ہیں۔ اس طرح موٹر سائیکل سوار خامش آبشار، منٹوکھا آبشار، وادئ سیوک، وادئ شیلا، ڈورو بروق چھت، چھوربٹ، فیرانو، کندوس اور وادئ شگر کے دُور افتادہ علاقوں تک باآسانی جاسکتے ہیں۔
جھیلوں تک رسائی کے خواہشمند ٹریکرز کے لیے بلتستان میں بے شمار جھیلیں موجود ہیں جن میں سے بعض وقت کے ساتھ مشہور ہوچکی ہیں جبکہ بہت سی جھیلوں کا ابھی منظرِ عام پر آنا باقی ہے، اور اس تحریر میں ہم ایسی ہی کچھ جھیلوں کا ذکر کریں گے۔
##خرفق جھیل
اسکردو سے خپلو روڈ پر سفر کرتے وقت خرفق کا خوبصورت گاؤں واقع ہے۔ اسکردو سے اندازاً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی آبادی کم و بیش 50 سے 60 چولہوں پر مشتمل ہے۔ عام طور پر ایک گھرانے میں 2 سے 3 یا اس سے زائد چولہے جلتے ہیں اور مقامی سطح پر چولہوں کی تعداد سے ہی آبادی کے تناسب کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ خرفق گانچھے کے صدر مقام خپلو سے قریباً 40 منٹ کی دُوری پر واقع ہے۔
اکثر مقامی آبادی کاشت کاری سے وابستہ ہے۔ اس علاقے میں آلو اور جو کی فصلوں کے علاوہ خوبانی اور سیب کے درختوں کی بھی بہتات پائی جاتی ہے۔ وادی میں پانی کا اہم ذریعہ خرفق جھیل سے بہنے والا نالہ ہے۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں اور جھیل کو منزلِ مقصود بنا کر یہاں آنے والے ٹریکرز کی ہر ممکنہ مدد بھی کرتے ہیں۔
مقامی گائیڈ کی موجودگی میں اگر جھیل کی ٹریکنگ دوپہر ساڑھے 12 بجے شروع کی جائے تو شام ساڑھے 4 بجے تک ٹریکنگ مکمل کرکے خرفق گاؤں لوٹا جاسکتا ہے، مختصر دورانیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جھیل کی ٹریکنگ کوئی اتنی مشکل نہیں۔
خرفق گاؤں سے خرفق جھیل کا فاصلہ 3 کلومیٹر ہے۔ ایک تجربہ کار ٹریکر 3 گھنٹوں کی مسافت میں جھیل تک کا سفر طے کرسکتا ہے۔ یہ ٹریک مستقل مگر نارمل عمودی چڑھائی پر مشتمل ہے۔ ابتدائی راستہ انتہائی سرسبز ہے۔ جولائی کے وسط میں سبزے اور پھلدار درختوں پر سرسراتی ہوا انتہائی خوشگوار معلوم ہوتی ہے۔ خرفق جھیل کے سفر کا بہترین وقت جولائی اور اگست ہے۔ دراصل ان مہینوں میں سبزہ اور پانی دونوں جھیل کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگادیتے ہیں۔
جھیل کے گرد آب و تاب سے کھڑے اونچے سرمئی پہاڑ قراقرم کی ہیبت ناکی کو مزید واضح کردیتے ہیں۔ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرکے آپ ایسے ٹاپ تک بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں سے یوگو اور خرفق کا نظارہ قابلِ دید ہوتا ہے۔
دریائے سیوک کے کنارے آباد یہ بستیاں اور ان کے بیچ لہلہاتے خوبصورت کھیتوں کے خوشگوار مناظر دل و دماغ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ مقامی آبادی نے انتہائی محنت سے جھیل تک رسائی کے لیے بڑے بڑے پتھر راستے پر بچھا رکھے ہیں تاکہ بارش یا کیچٹر میں چڑھائی میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
بلتستان میں موسمِ گرما کے آغاز سے ہی مویشیوں کو پہاڑوں کے ٹاپ پر موجود چراگاہوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آپ کو اس ٹریک پر بھی جگہ جگہ پتھروں کی بڑی سلوں سے بنے ہوئے چوپایوں کے مسکن نظر آجائیں گے۔
جھیل کی آخری چڑھائی سے قبل ایک چھوٹا سا میدان آتا ہے جہاں کچھ دیر بیٹھ کر چائے بنانے کا تجربہ کبھی نہیں بُھلایا جاسکتا۔ خاکسار کے مشاہدے کے مطابق عام طور پر جھیلوں سے پہلے راستے میں بڑے بڑے پتھر ملتے ہیں جن کے نیچے بہتے پانی کی آواز کو سُنا جاسکتا ہے لیکن خرفق جھیل سے قبل ایسا مشاہدہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ خوبصورت نالے کی معیت میں کب جھیل تک جا پہنچے، پتا ہی نہ چلا۔
جھیل کا پہلا نظارہ قابلِ دید ہے۔ خرفق 3 اطراف سے قراقرم کے سرخ سلیٹی رنگ کے پہاڑوں کے بیچوں و بیچ اپنے وجود کو سموئے ہوئی ہے۔ جھیل کی اونچائی تقریباً ساڑھے 10 ہزار فٹ ہے۔ گہری سبز رنگت کی حامل اس جھیل کے عقب میں موجود بھوج پتر کے درخت اس کی خوبصورتی کو مزید جلا بخشتے ہیں۔
جھیل کے عقب میں ہی کھرمنگ پاس ہے جہاں سے ضلع کھرمنگ کی حدود میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ مقامی بکروال جھیل کے کنارے اپنے جانوروں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ مقامی بکروالوں سے بکری کا دودھ لے کر بنائی گئی چائے پیتے وقت جب جھیل کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ یہ خیال ذہن میں تیر آتا ہے کہ ان خوبصورت وادیوں کے بیچ ان خوبصورت جھیلوں کا رنگ بھرنے والا مصور کتنا ہی خوبصورت اور ذی وقار ہوگا۔
##کسارا جھیل
دنیا کی چھت دیوسائی سے شاید ہی کوئی پاکستانی ناواقف ہو۔ 3 ہزار مربع فٹ پر مشتمل یہ سرسبز میدان دنیا میں اپنی دلکشی تسلیم کروا چکا ہے۔ اگر آپ اپنی بصارت اور سماعت کو ترو تازگی بخشنے کے خواہاں ہیں تو ہم آپ کو دیوسائی کے وسیع و عریض جہاں میں کچھ دن گزارنے کا مشورہ دیں گے۔
استور کی جانب سے 5 گھنٹے جبکہ اسکردو کی طرف سے 2 سے 3 گھنٹے کی مسافت پر موجود یہ خطہ بے شمار جنگلی حیات، جڑی بوٹیوں، ندی نالوں اور دو درجن سے زائد جھیلوں کا مسکن ہے۔
دیوسائی سال کا زیادہ وقت برف کی چادر اوڑھے رہتا ہے مگر موسمِ گرما کے صرف 3 سے 4 ماہ میں اپنے جلوؤں سے ہزاروں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔
7 ہزار فٹ سے 14 ہزار فٹ کی بلندی تک جانے کا یہ سفر ایڈونچر سے بھرپور ہے۔ ایک سادہ شرٹ سے جیکٹ پہننے تک صرف ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔ علی میر ٹاپ اور بڑا پانی 2 ایسے مقامات ہیں جہاں آج کل انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔
وائلڈ لائف سے منسلک دوست ہمایوں خان اور ہوٹل مالک دولت خان کی فرمائش پر جولائی کے آخر میں اسکردو سے کالا پانی جاپہنچے۔ خوش قسمتی سے ان دنوں موسم صاف تھا۔ دوپہر کو دھوپ کی تمازت اور رات کو چمکتے دمکتے ستاروں کا حُسن آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔ دیوسائی اگر رات کو صاف ہو تو فوٹوگرافر حضرات کی چاندی ہوجاتی ہے کیونکہ ملکی وے کی خوبصورت انداز میں تصویر کشی کرنا اور دیوسائی کا رات کا حُسن اجاگر کرنا زیادہ آسان رہتا ہے۔
دیوسائی میں سیاحتی اعتبار سے بڑا پانی اور کالا پانی 2 بھائیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں خوبصورت ندیوں کے کنارے آباد ہیں۔ بڑا پانی کی ندی کو ہمارا وطن کچھ زیادہ ہی پیارا لگتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت کی حدود میں داخل ہونے کے بعد دوبارہ پاکستان میں اپنے بہاؤ کو رواں رکھتی ہے۔ جبکہ چھوٹا پانی کی ندی ایک خوبصورت جھیل کا منبع ہے۔ دونوں ندیاں دیسی اور ٹراؤٹ مچھلیوں سے مالا مال ہیں۔
2 راتوں کے قیام کے بعد خراب موسم کی پیش گوئی کے پیش نظر ہم 4 دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اگلے دن جھیل تک پہنچا جائے۔ احسان امریکا سے دیوسائی کے دیدار کے لیے خصوصاً تشریف لائے تھے لہٰذا ان کے لیے اگلے ہی دن بکروالوں سے بات کرکے گھوڑے کا اہتمام کرلیا گیا۔
اگلے دن علی الصبح ناشتے کے بعد ہم ندی کے کنارے ہزاروں سالوں سے بسنے والے بکروالوں کے خیمہ جات تک پہنچے۔ دیسی لسی اور چائے سے تواضع کے بعد احسان جلد ہی گھوڑے کی پشت پر بیٹھ گئے اور یوں ہماری خوبصورت ٹریکنگ کا آغاز ہوا۔
40 سے 50 منٹ چلنے کے بعد بادلوں نے چاروں طرف سے ہمیں گھیر لیا۔ لیکن بادلوں کی گرج کے باوجود ہم رواں دواں رہے۔ شاید اس کی وجہ وہ محاورہ بھی تھا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں مگر دیوسائی ان اردو موسمی محاوروں کا قائل نہیں۔ ہلکی بارش شروع ہوئی تو کالا پانی کی ندی بھی دُور ہوگئی۔ پھر یہی وہ مقام تھا جہاں سے چڑھائی کا آغاز بھی ہوگیا۔ بکروال، احسان حتیٰ کہ گھوڑا بھی مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن میں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ جھیل کا نظارہ کرکے ہی لوٹیں گے مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ 2 گھنٹے چلنے کے بعد جیسے ہی آخری چڑھائی تک پہنچے تو ایسا لگا جیسے کسی نے ہمارے سروں پر پتھر مارنے شروع کردیے ہوں۔ جلد ہی احساس ہوا کہ یہ پتھر نہیں بلکہ اولے ہیں اور جلد کوئی فیصلہ نہیں کیا تو یہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔
میں نے بکروال اور احسان کو کہا کہ جتنی جلدی ہوسکے نیچے اترنا شروع کردیں تاکہ اولوں کے عذاب سے بچ سکیں کیونکہ بلندی پر موجود رہنے کا مطلب اولوں کی یلغار سہنا بنتا۔
چونکہ ہم 14 ہزار فٹ کی اونچائی پر تھے اس لیے دیوسائی کے میدان میں نہ کوئی پتھر اور نہ کوئی درخت میسر تھا۔ آدھے گھنٹے کی مستقل اترائی کے بعد ہم بارش کے گرتے قطروں کی دنیا میں واپس آچکے تھے لیکن ہماری جیکٹوں کے ساتھ جسم بھی ٹھنڈے پڑچکے تھے۔ احسان نے چلا کر کہا بھٹی یہ ٹریکنگ نہیں موت ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ بھائی یہ ٹریکنگ کا ہی ایک حُسن ہے۔
اسی بحث کے دوران ہم بکروالوں کے کیمپ تک پہنچ گئے۔ بکروال اگر میزبان بن جائیں تو ان سے بڑا مہمان نواز کوئی نہیں۔ ہمیں جلد ہی آگ اور دیسی دودھ کی چائے مہیا کی گئی۔ اس دوران ہمیں بزرگ بکروال نے یہ بھی بتایا کہ اس جھیل کو ہم نے صدیوں سے کسارا جھیل کا نام دیا ہوا ہے۔ موسم صاف ہونے کے بعد ہم ناکام ٹریک کے بعد واپس کالا پانی پہنچے۔
رات کے کھانے کے بعد جب کیمپ فائر کے گرد بیٹھے تو طے پایا کہ ادھوری ٹریکنگ کو مکمل کیا جائے۔ مگر امریکی دوست ہمارے ساتھ چلنے کو راضی نہیں ہوئے، لیکن ہم نے جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لہٰذا ہم بغیر کسی گائیڈ کے ایک بار پھر روانہ ہوگئے۔ سفر کے آغاز میں تو موسم صاف تھا لیکن جھیل کے گرد ایک مرتبہ پھر بادل جمع ہونے لگے مگر ہم بغیر کہیں رُکے ڈیڑھ گھنٹے میں جھیل تک لے جانے والی آخری چڑھائی کے نکتہ آغاز تک کامیابی سے پہنچ گئے۔ صد شکر کے بعد چڑھائی عبور کرنے لگے یہاں تک کہ پہاڑوں کے بیچ گھری خوبصورت کسارا (کالا پانی) جھیل نظر آنے لگی۔
جھیل چھوٹی مگر انتہائی خوبصورت ہے۔ ڈرون اڑا کر فوٹیجز لیں تو جھیل کی شکل آنکھ نما نظر آئی۔ 14 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس جھیل کی لمبائی لگ بھگ 1200 فٹ اور چوڑائی 600 فٹ ہے۔ جھیل کا پانی ہلکا نیلگوں رنگ کا ہے۔ موسم نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور کالے پانی کی اس خوبصورت کسارا جھیل کے نظاروں سے 40 منٹ لطف اندوز ہوکر اس امید کے ساتھ واپسی کی راہ لی کہ جلد ہی ٹریکرز خواتین و حضرات قانونی اجازت ناموں کے بعد اس جھیل کا ضرور دیدار کرنے آئیں گے۔
##زونگ جھیل
گزشتہ سال ضلع کھرمنگ کی سب سے بڑی جھیل غوراشی ژھو کی سیر کا موقع ملا تھا۔ جب جھیل کی جانب رواں دواں تھے تب راستے میں ایک مقام پر نیچے کی طرف نگاہ ڈالی تو ایک چھوٹے میدان کے پہلو میں جھیل کو دیکھا تھا۔
امسال جہاں میرے 3 دوست غوراشی جھیل کا قصد کرتے ہوئے نکلے وہیں میں اس چھوٹی جھیل کی جانب روانہ ہوا۔ گمبہ شغرن کو غندوس گاؤں کا ایک ملحقہ محلہ کہا جاسکتا ہے۔ عاجزانہ رائے میں یہ ایک انتہائی خوبصورت جگہ ہے شاید وادی کھرمنگ میں جتنی پانی کی بہتات اس علاقہ میں ہے اتنی کسی اور جگہ نہیں۔ اس کی بڑی وجہ گمبہ شغرن کے سر پر کھرمنگ کی سب سے بڑی جھیل کا موجود ہونا ہے۔
یہاں پر ہر قسم کا پھل موجود ہے جن میں خوبانی کی 2 انتہائی لذیذ اقسام ’ہلمان‘ اور ’مارغولام‘ بھی شامل ہیں۔ غندوس میں پتھروں کی بڑی بڑی سلوں پر خوبانی کو سوکھا کر سردیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سیب، ناشپاتی، انگور اور بادام کے درخت بھی یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
کارگل روڈ پر اسکردو سے کھرمنگ سفر کرتے ہوئے بائیں ہاتھ پر بالترتیب چھوٹا اور بڑا پُل آتے ہیں۔ چھوٹا پُل سے پیدل جبکہ بڑے پُل سے بذریعہ گاڑی گمبہ شغرن پہنچا جاسکتا ہے۔ گمبہ شغرن سے صرف 30 منٹ کی پیدل دُوری پر زونگ جھیل کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹی مگر انتہائی خوبصورت جھیل ہے۔ تیراکی کا ذوق و شوق رکھنے والے دوستوں کے لیے یہ مقام موزوں ہے۔
جھیل کے کناروں پر کیمپنگ کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ جھیل کا شفاف پانی جھیل کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کردیتا ہے۔ انتہائی ٹھنڈے پانی کی اس جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 12 سے 14 فٹ ہے جبکہ اس کی چوڑائی 20 اور لمبائی لگ بھگ 100 فٹ ہے۔ اگر سر پر تیز دھوپ ہو اور ماہِ اگست ہو تب اس جھیل میں نہانے کا صحیح معنوں میں لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ جھیل کے اطراف میں لگے خوبانی کے درختوں سے تازہ خوبانی اتار کر کھانا اور ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگانا یہاں آنے والے سیاحوں کی سہانی یادوں کا حصہ بن جاتا ہے۔
تصاویر: لکھاری
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔