قائدِ اعظم کے وہ افکار جو چھپائے جاتے ہیں
پاکستان کی ریاست، ہمارے دانشوروں اور اہلِ سیاست نے بڑی مہارت سے قائدِاعظم کی فکر کا ایک اہم ترین گوشہ ہم سے چُھپا رکھا ہے، جو اقتصادی نظام، معاشی استحصال، بالادست طبقات کی لوٹ کھسوٹ اور مفلسوں کی بدحالی سے متعلق ان کے خیالات پر مبنی ہے۔
قائدِاعظم محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ یہ سوال ہمارے ہاں بار بار اٹھتا ہے، دہرایا جاتا ہے، اس پر بحث مباحثہ ہوتا ہے، سیمینار اور مذاکرے ہوتے ہیں، لیکن اس سوال کو پاکستان کی نظری سمت یعنی پاکستان کے سیکولر یا اسلامی ریاست ہونے، مذہبی اقلیتوں اور جمہوریت کے بارے میں بانی پاکستان کے افکار تک محدود کردیا گیا ہے۔
اس کے برعکس بابائے قوم کے معاشی امور سے متعلق اقوال، جو پاکستان کی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم بھاری اکثریت کے روز و شب سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں، اس سوال کے دائرے میں آنے سے محروم ہی رہتے ہیں کہ قائدِاعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔
جب ہم معیشت اور معاشی استحصال کے بارے میں قائدِاعظم کے خیالات سے آگاہ ہوتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس نے ایک تاجر کے گھر میں جنم لیا اور جس کی سیاسی تربیت کا آغاز لندن جیسے سرمایہ داری کے گڑھ سے ہوا، وہ جس آل انڈیا نیشنل کانگریس سے وابستہ ہوا وہ سرمایہ داروں کے مفادات کی نگہبان تھی، اور وہ جس آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر بنا اس پر جاگیرداروں کا غلبہ تھا۔
مزید پڑھیے: جناح صاحب بمقابلہ قائدِاعظم
پھر برِصغیر کے مسلمان اپنے وجود کی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اور قومی سوال ہندوستانی سیاست کا محور بنا ہوا تھا، چنانچہ یہ امکان بھی نہیں کہ محمد علی جناح مفلوک الحال مسلمانوں میں کمیونسٹوں کی مقبولیت کے پیشِ نظر دفاعی حکمتِ عملی کے طور پر غریب دوست سوچ کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس نو تشکیل شدہ ریاست کو اپنے قائم رہنے کے حوالے سے جن خدشات اور مسائل کا سامنا تھا ان کے پیش نظر نئی جنم لینے والی پاکستانی قوم کے کمیونزم کی طرف مائل ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
ایسے میں یہ ماننا پڑے گا کہ اقتصادی نظام اور جاگیرداری اور سرمایہ داری کے استحصال کے خلاف قائدِاعظم کے خیالات اور نظریات کسی خوف کا نتیجہ اور سیاسی حکمتِ عملی کے ہتھیار نہ تھے بلکہ یہ ایک انسان دوست، غریب پرور اور بااصول سیاستدان کے وہ فکری نتائج تھے جو انہوں نے اپنی جدوجہد کے دوران پورے ہندوستان کے دوروں میں عوام کے حالات خاص طور پر مسلم نچلے طبقے کی زندگی کا براہِ راست مشاہدہ کرکے اور عوام سے رابطوں کے ذریعے اخذ کیے تھے۔ ان کی تقریر کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
(مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب، 24 اپریل 1943ء۔ بحوالہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کا مضمون، مطبوعہ روزنامہ جنگ 20 دسمبر 2020ء، دیگر تحریریں)
مزید پڑھیے: قصہ قائد کے لباس کا
دیکھا آپ نے! وہ 1943ء میں تحریکِ پاکستان کے نازک موڑ پر واشگاف الفاظ میں اس خطے کے جاگیرداروں کو للکار رہے تھے جہاں پاکستان بننا تھا، یوں وہ اس استحصالی طبقے کی مخالفت کا خطرہ مول لے کر بھی اپنی سوچ کے اظہار سے باز نہ آئے۔
ایک اور اہم موقعے پر قیامِ پاکستان کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
(دہلی میں مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب، 6 نومبر 1944ء۔ بحوالہ مختلف مطبوعہ تحریریں)
مزید پڑھیے: قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق
یعنی بانی پاکستان اپنی تشکیل کردہ ریاست میں سرمایہ دارانہ نظام نہیں چاہتے تھے، جس کی بنیاد سود، سرمائے کے دیوتا کے قدموں میں ہر اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی قدر قربان کردینے اور سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دینے پر استوار ہے۔ یہ وہ دور تھا کہ آج کے سیاستدانوں کی 'سیاسی بصیرت' کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس وقت جاگیرداروں کو قیامِ پاکستان کی حمایت پر مائل کرنا، ان کا یہ 'اندیشہ' دُور کرنا کہ پاکستان میں ان کی جاگیروں اور ظلم میں ذرا بھی کمی آئے گی اور سرمایہ داروں کو ٹیکسوں کی چھوٹ اور 'سستی لیبر' کے خواب دکھا کر انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر مائل کرنا ہی 'سیاست' کا تقاضا تھا لیکن قائدِاعظم نے ایسی کسی مصلحت کو پیش نظر رکھے بغیر صاف صاف بتادیا کہ وہ کیسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔
بظاہر اپنی وضع قطع، زبان اور طرزِ زندگی میں 'مغرب زدہ' نظر آنے والے محمد علی جناح مغربی اقدار اور نظریات، خاص کر مغرب کے اقتصادی نظام سے کس حد تک بے زار تھے، اس کا اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے:
انہوں نے مزید کہا تھا:
(اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب، یکم جولائی 1948۔ بہ حوالہ Jinnah, Creator of Pakistan: Hector Bolitho)
آپ کو قائدِاعظم کے یہ افکار اور اقوال کسی سرکاری تقریب میں سنائی دیں گے نہ کسی سیاسی جلسے میں، یہ ٹی وی چینل پر اور اخبارات میں 'قائد نے فرمایا' کے زیرِ عنوان نظر آئیں گے، نہ آپ انہیں کسی عمارت کی دیوار پر آویزاں دیکھ پائیں گے، کیونکہ ہمارے ملک کے بالادست طبقات جس نظام پر متفق ہیں، یہ اقوال اس نظام کی جڑ کاٹتے ہیں۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔