قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے چیئرمین کا ’ارسا‘ کے خلاف وزیراعظم کو شکایتی خط
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے چیئرمین نواب یوسف تالپور نے وزیراعظم عمران خان سے 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کی مبینہ خلاف ورزیوں کی شکایت کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے پہلے سے ہی تمام صوبوں نے متفقہ طور پر اتفاق کیا تھا‘۔
مزید پڑھیں: ارسا نے صوبہ سندھ کو پانی کی فراہمی میں اضافہ کردیا
ایک خط میں سندھ کے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ خریف سیزن 2021 کے آخر میں سندھ اور بلوچستان میں پانی کی موجودہ قلت کے پس منظر میں ان کا اختلاف رائے ضروری تھا لیکن اس کے بڑے اور طویل المیعاد مضمرات تھے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ فصلوں کے سیزن 2021 کے لیے ارسا ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں تقسیم شدہ پیٹرن کو ’انتہائی متنازع تین درجے کے فارمولے‘ پر بنایا گیا تھا اور لنک نہروں کا کام اور منگلا ڈیم کو بھرنا معاہدے کی مکمل خلاف ورزی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پانی کی تقسیم، معاہدہ 1991 کی شقوں سے انحراف کرتی ہے۔
نواب یوسف تالپور نے کہا کہ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور نمائندوں نے دستخط کیے تھے اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے مارچ 1991 میں اس کی توثیق کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ‘سندھ کو 60 برس میں پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے’
انہوں نے کہا کہ معاہدے کے پیرا 2 کا تعلق پانی کی تقسیم سے ہے جبکہ پیرا 14 (اے) کے مطابق صوبوں کو مراحلہ وار 10 روز کے لیے پانی ملے گا۔
یوسف تالپور نے کہا کہ ارسا نے معاہدے کے تحت اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور معاہدے کے برعکس تقسیم شروع کر دی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ارسا تین درجے کے فارمولے کی تقسیم پر سندھ کے اعتراض کے باوجود اپنے فارمولے وضع کیے ہیں جو کہ سب سے متنازع انتظام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ارسا کی بنیاد 22 مئی 1993 کو رکھی گئی اور اس نے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔
یوسف تالپور نے کہا کہ 2 مئی 1994 کو وزرا کی صوبائی کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں 1977 سے 1982 تک اوسط نظام کے استعمال پر مبنی پانی کی تقسیم کے لیے ایک نیا فارمولا تجویز کیا گیا تھا جو واپڈا کے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانی سے متعلق پنجاب، سندھ کا تنازع مزید بڑھ گیا
سندھ گزشتہ 18 برس سے تین درجے کے فارمولے پر احتجاج کر رہا ہے لیکن ارسا نے اسے نظر انداز کیا اور کوئی کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ وفاقی اداروں سے اس بابت سوال کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ارسا پانی کی تقسیم کے معاہدے کی شقوں کے دائرہ کار پر سختی سے عمل کرے۔
انہوں نے کہا کہ خریف سیزن کے دوران تونسہ- پنجناد اور چشمہ جہلم لنک نہروں کے ذریعے نچلے معاون علاقوں میں پانی کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں ہے۔