صحت

کورونا کی قسم ڈیلٹا کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سامنے آگئی

کورونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا بیشتر ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے؟

کورونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا بیشتر ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے؟

اس سوال کا جواب برطانیہ اور بھارت کے طبی ماہرین کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا کا پھیلاؤ ممکنہ طور پر وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر حملے کی صلاحیت اور زیادہ متعدی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں لیبارٹری میں تجربات اور ویکسین کے بعد لوگوں کے بیمار ہونے یا بریک تھرو انفیکشنز کا تجزیہ کیا گیا۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ ڈیلٹا اپنی نقول بنانے اور وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیلاؤ کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بھی شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا قسم کے خلاف گھٹ جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر ممکنہ طور پر 2021 کی پہلی سہ ماہی کے دوران بھارت میں کورونا کی تباہ کن لہر کا باعث بنے۔

یہ جاننے کے لیے ڈیلٹا قسم کس حد تک مدافعتی ردعمل پر حملہ آور ہوسکتی ہے، تحقیقی ٹیم نے خون کے نمونوں سے نکالے گئے سیرم کے نمونے حاصل کیے۔

یہ نمونے ان افراد کے تھے جو پہلے کووڈ کا شکار ہوچکے تھے یا ان کی ایسٹرازینیکا یا فائزر ویکسینز سے ویکسینیشن ہوچکی تھی۔

سیرم قدرتی بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز پر مشتمل تھے اور تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں قدرتی بیماری سے پیدا ہونے وای اینٹی باڈیز کی حساسیت یا افادیت 5.7 گنا کم ہوگئی۔

ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا کے خلاف ایلفا کے مقابلے میں 8 گنا کمی دریافت ہوئی۔

اسی حوالے سے دہلی کے 3 ہسپتالوں میں کام کرنے والے 100 طبی ورکرز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور ان میں ڈیلٹا کی تصدیق ہوئی تھی۔

ماہرین نے دریافت کیا کہ متاثرہ افراد میں ڈیلٹا کی منتقلی کا امکان ایلفا قسم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے لیبارٹری تجربات کے لیے ڈیلٹا والی میوٹیشنز پر مبنی وائرس تیار کرکے اسے لیب میڈ تھری ڈی اعضا کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا خلیات میں داخل ہونے کے لیے دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتی ہے کیونکہ اس کی سطح پر اسپائیک پروٹین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

ایک بار خلیات میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی نقول بنانے کے حوالے سے بھی دیگر اقسام سے بہت زیادہ بہتر ہے۔

یہ دونوں عناصر وائرس کی اس قسم کو دیگر اقسام کے مقابلے میں سبقت حاصل ہوئی ہے اور یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں یہ دنیا کے مختلف ممالک میں بالادست قسم بن چکی ہے۔

محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کی قسم تیزی سے پھیلاؤ اور لوگوں کو بیمار کرنے کی بہتر صلاحیت کی وجہ سے دنیا بھر میں بالادست قسم بن گئی، یہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے وای مدافعت کے خلاف مزاحمت کی بھی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی مدافعت کے نتیجے میں ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر عموماً بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے مگر اس سے ان افراد کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے جو پہلے سے مختلف امراض کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر وائرس کی اقسام کے خلاف ویکسین کے ردعمل کو بہتر بنانے کے ذرائع پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ بیماری کی روک تھام کے اقدامات کی ضرورت ویکسین کے بعد بھی ہوگی۔

اس تحقیق میں برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل اور نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ ریسرچ جبکہ بھارت کی وزارت صحت، کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی کے ماہرین نے مل کر کام کیا تھا۔

کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی شدت مختلف ہونے کی ممکنہ وجہ سامنے آگئی

'سائنو ویک ویکسین کی تیسری خوراک ڈیلٹا کے خلاف مدافعتی نظام کو زیادہ طاقتور بناتی ہے'

ویکسینز کی افادیت میں کمی ڈیلٹا کے پھیلاؤ اور ماسک کے استعمال نہ کرنے کا نتیجہ قرار