پاکستان

کراچی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے دو سالہ بیچلر پروگرام کو ختم کردیا

یونیورسٹی نے 6 ستمبر سے شروع ہونے والے دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگراموں میں داخلے کا اعلان بھی کردیا، رپورٹ

کراچی: اپنے پہلے فیصلے پر دو مہینوں میں ہی یوٹرن لیتے ہوئے کراچی یونیورسٹی (کے یو) کی اکیڈمک کونسل نے حال ہی میں وابستہ سرکاری اور نجی کالجز کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیے بغیر اور نئے پروگراموں کے بارے میں آگاہی پیدا کیے بغیر آرٹس، سائنس اور کامرس (بی اے، بی ایس سی اور بی کام) میں اپنے دو سالہ بیچلر پروگرام کو ختم کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ جلد بازی میں اقدامات کرتے ہوئے یونیورسٹی نے 6 ستمبر سے شروع ہونے والے دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگراموں میں داخلے کا اعلان بھی کردیا۔

کے یو کی اکیڈمک کونسل نے اپنے روایتی گریجویٹ ڈگری پروگرامز (بی اے، بی ایس سی اور بی کام) کو جاری رکھنے کی متفقہ طور پر منظوری دی تھی اور جولائی میں منعقدہ اجلاس میں دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام جون 2022 تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

3 ستمبر کو یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق 'تعلیمی کونسل نے پالیسی کی منظوری کے بعد ریگولر اور پرائیوٹ طلبا کے لیے دو سالہ بی اے، بی ایس سی اور بی کام ڈگری پروگراموں کے نام کو بالترتیب آرٹس میں ایسوسی ایٹ ڈگری، سائنس میں ایسوسی ایٹ ڈگری اور کامرس میں ایسوسی ایٹ ڈگری میں تبدیل کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: جامعہ کراچی کا بیچلرز، ماسٹرز پروگرام بدستور جاری رکھنے کا فیصلہ

اسی اجلاس میں منظور کی گئی تعلیمی کونسل کی ایک قرارداد کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جس کے مطابق 'نصاب، قواعد و ضوابط میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، کورس کا خاکہ/نصاب جو پہلے ہی بی اے، بی ایس سی اور بی کام میں پیش کیا جا چکا ہے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام میں پیش کیا جائے گا اور ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کے امتحان کا نظام سابقہ جیسا ہوگا'۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ 'تعلیمی کونسل نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو کراچی یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی منظوری کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے دی گئی ہدایات کی روشنی میں نصاب میں تبدیلیوں بشمول ایسوسی ایٹ ڈگری کے امتحان کے نظام پر تبادلہ خیال کرے گی'۔

طلبا کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا، اساتذہ

ڈان سے بات کرتے ہوئے کالج کے سینئر اساتذہ نے کراچی یونیورسٹی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے تعلیم مخالف قدم قرار دیا۔

ملیر گورنمنٹ ڈگری کالج کے سینئر استاد اور سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے رکن پروفیسر ظفر یار خان نے کہا کہ 'یونیورسٹی لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ نہیں کر سکتی کہ وہ صرف پروگرام کا نام تبدیل کر رہے ہیں، وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے پروگرام کی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے، یہ اب گریجویٹ ڈگری پروگرام نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے خاص طور پر ان محروم طلبہ پر جن کے پاس پہلے دو سال میں بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کا آپشن موجود تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی کے طلبہ کا سمسٹر امتحانات کے خلاف احتجاج

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی میں ہر سال یونیورسٹیز میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد 16 ہزار کے لگ بھگ تھی تاہم سالانہ ایک لاکھ سے زائد طلبہ کالجز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگوں نے پرائیوٹ تعلیم کا انتخاب کررکھا ہوتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کئی تعلیمی ادارے کورنگی، ناظم آباد، ملیر، نارتھ کراچی اور نیو کراچی جیسے پسماندہ علاقوں میں واقع ہیں اور ان کالجز میں داخلہ لینے والے طلبہ غریب ہیں اور یونیورسٹی کی تعلیم کے متحمل نہیں ہو سکتے، انہیں ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے صرف بیچلر کی ڈگری درکار ہوتی ہے۔

عدالت کے احکامات

اس سلسلے میں کالج اساتذہ نے سندھ ہائی کورٹ کے ان احکامات کا حوالہ دیا جن کے تحت کالجز کو دو سالہ بیچلر ڈگری پروگرام ختم کرنے اور چار سالہ بیچلر پروگرام شروع کرنے کی ضرورت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کیس اب بھی زیر سماعت ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جب تک کالجز اپنے بنیادی ڈھانچے اور تدریسی صلاحیت کو چار سالہ بیچلر ڈگری پروگرام شروع کرنے کے لیے اپ گریڈ نہیں کریں گے، کراچی یونیورسٹی اور سندھ کی دیگر یونیورسٹیز سے وابستہ کالجز کو دو سالہ بیچلر پروگرام جاری رکھنا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: بی اے، ایم اے پرائیوٹ کے طلبہ کا مستقبل خطرے میں

رابطہ کرنے پر کراچی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر خالد محمود عراقی نے کہا کہ بورڈ اور یونیورسٹیز کے سیکریٹری نے گزشتہ ماہ ہونے والے ایک اجلاس میں جامعہ کراچی، بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری، سندھ یونیورسٹی جامشورو اور شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے وائس چانسلرز کو ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کو نافذ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیے ہیں جن میں والدین کو خبردار کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو غیر مجاز بی اے، بی ایس سی اور بی کام پروگرامز میں داخل نہ کرائیں کیونکہ یہ پروگرام عدالتی احکامات اور ایچ ای سی کی ہدایات کے تحت بند کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تمام یونیورسٹیز نے ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کو اپنایا ہے۔

'ڈی جی آئی ایس آئی کا دورہ کابل'، غیر روایتی رابطے ضروری ہیں، فواد چوہدری

گوادر اور کوئٹہ حملوں میں ملوث دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، شیخ رشید