بھارت: اترپردیش میں لاکھوں کسانوں کا زرعی قوانین کے خلاف احتجاج
بھارت کی ریاست اترپردیش میں لاکھوں کسانوں نے نریندر مودی کی حکومت کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف شدید احتجاج کیا اور ایک بڑی ریلی نکالی۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس کا کہنا تھا کہ مظفرنگر شہر میں نکالی گئی ریلی میں 5 لاکھ سے زائد کسانوں نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں: بھارت: شدید احتجاج کے باوجود متنازع زرعی بل قانون بن گیا
مشہور کسان رہنما راکیشن ٹیکیٹ کا کہنا تھا کہ 24 کروڑ آبادی کی حامل زرعی ریاست اترپردیش میں احتجاج تحریک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اترپردیش کے تمام شہروں اور قصبوں میں جا کر احتجاج کریں گے اور پیغام پہنچائیں گے کہ نریندر مودی کی حکومت کسان مخالف ہے’۔
بھارت میں گزشتہ 8 ماہ کے دوران دارالحکومت نئی دہلی میں ہزاروں کسان احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں، جو ان قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں اور اسی طرح یہ بھارت میں کسانوں کا طویل احتجاج ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں بھارتی حکومت نے قوانین متعارف کروائے تھے، جس کے تحت کسانوں کو اپنی پیداوار حکومتی سطح سے باہر ہول سیل مارکیٹ میں بڑے خریداروں کو براہ راست فروخت کرنی ہوگی۔
حکومت کا کہنا تھا کہ اس سے کسانوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور انہیں اچھی قیمیتیں ملیں گی۔
دوسری جانب کسانوں کا مؤقف ہے کہ اس قانون سازی سے ان کی زندگی متاثر ہوگی اور وہ نجی سطح پر بڑے ریٹیلرز اور کھانے کی اشیا تیار کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی یوم جمہوریہ پر ہزاروں کسانوں کا نئی دہلی میں احتجاج، لال قلعے پر چڑھائی
بھارت میں زراعت ایک وسیع شعبہ ہے، جس سے 1.3 ارب کی مجموعی آبادی کا نصف سے زائد حصہ منسلک ہے اور ملک کی معیشت کا 15 فیصد یعنی 2.7 کھرب ڈالر کا حصہ دار ہے۔
کسان رہنما بلبیر سنگھ راجیوال کا کہنا تھا کہ اتوار کی ریلی وزیراعظم مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے تنبیہ ہے کیونکہ وہ اترپردیش میں اگلے برس مقامی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیں گے اور وفاقی حکومت کی مقبولیت میں تنزلی آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا پیغام واضح ہے، قانون کو واپس لیں یا ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کریں’۔
یاد رہے کہ 28 ستمبر 2020 کو بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے ملک بھر میں کسانوں کے شدید احتجاج کے باوجود زرعی بل پر دستخط کرکے قانون بنانے کی منظوری دے دی تھی۔
کسانوں کا کہنا تھا کہ نئے قانون کو ان کی حیثیت کمزور کرکے ریٹیلرز کو قیمتوں میں اضافے کے اختیارات دیے جائیں گے۔
کسانوں کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ تین میں سے ایک بل کے قانون بننے سے حکومت کے لیے ضمانتی قیمتوں پر گندم خریدنے کی شرط ختم ہوجائے گی اور اس سے ہول سیل مارکیٹ میں خلل آئے گا جہاں اب تک کسانوں کو شفاف اور وقت پر ادائیگیاں ہوتی ہیں۔
بھارتی صدر رام ناتھ کووند کی منظوری کے بعد کسانوں کے احتجاج میں مزید شدت آگئی تھی اور رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ نریندر مودی پہلے ہی شمالی ریاست پنجاب سے اپنےقریبی اتحادی سے محروم ہو گئے ہیں، جو بھارت کو گندم فراہم کرنے والی دو بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے۔
اسی طرح بھارتی پنجاب میں کسانوں نے بااثر ووٹنگ بلاک بھی تشکیل دے دیا تھا۔
مزید پڑھیں: بھارت: یوم جمہوریہ کی تقریبات سے قبل کسانوں کی ٹریکٹروں پر دہلی کی طرف پیش قدمی
رواں برس بھارت میں یوم جمہوریہ کی فوجی پریڈ کے کے دوران بھی ہزاروں بھارتی کسانوں نے نئی دہلی میں تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا اور تاریخی لال قلعے پر چڑھائی کر دی تھی جس کے بعد پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس نے مظاہرین کو پریڈ کا جائزہ لینے کے لیے موجود وزیراعظم نریندر مودی سے مظاہرین کو دور رکھنے کے لیے برسوں بعد ایک بہت بڑی کارروائی کی تھی۔
پولیس نے شہر کے وسط میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور فوجی مشین گن لیے میٹرو ٹرین کے اطراف میں موجود رہے تھے۔
ہزاروں بھارتی کسانوں نے آنسو گیس اور پولیس کی رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوم جمہوریہ پر تاریخی لال قلعے پر چڑھائی کرکے اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔
کسانوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس احتجاج میں 10ہزار سے زائد ٹریکٹر نے شرکت کی۔