انقلابی خراب موسم میں کچھ نہیں کہتے، چوہدری نثار
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انقلابی دوست مشکل وقت میں خاموش ہوتے ہیں جب موجودہ آرمی سیٹ اپ کی جانب سے ریجیکٹڈ کا ٹوئٹ آیا تو جواب میں نے دیا تھا اور وزیراعظم سمیت کسی نے جواب نہیں دیا۔
نجی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘جرگہ’ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ قومی سیاست میں ایک مرتبہ پھر متحرک ہوں، کب ہوں گا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مزید پڑھیں: چوہدری نثار نے انتخابات میں کامیابی کے ڈھائی سال بعد بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اٹھالیا
ان کا کہنا تھا کہ حلقے کی سیاست میں تین سال سے فعال رہا ہوں لیکن قومی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی، جس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو جس جماعت کے لیے میں اپنی ساری زندگی دی اور اس سے اختلاف ہوا تو اس نے ضرورت سے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا تو میں نے علیحدگی اختیار کر لی۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ میرے بچپن کے دوست نے مجھے دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی مگر اس آپشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں سیاسی مخالفت نہیں تھی بلکہ تقریباً دشمنی میں بدل گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے اقدار نے اجازت نہیں دی کہ میں ایک جماعت سے اٹھ کر دوسری جماعت میں جاؤں اور اس میں ایک دوسرے کی دشمنی میں ہونے والی باتیں اپنے کانوں سے سنوں۔
سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ اس وقت جو سیاست ہو رہی ہے، اس سے میں اتفاق نہیں کرتا بلکہ سیاست نہیں ہو رہی ہے، آج گالم گلوچ، بےہودگی ہورہی ہے، خواہ اسمبلی ہو یا میڈیا میں ہمارے سیاست دان آتے ہیں، میں اس سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، کوشش کر رہا ہوں اگر موقع ملا تو سیاست کی بہتری میں کوئی کردار ادا کروں۔
سیاست میں واپسی کس جماعت سے کرنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملنا دور کی بات ہے، خواہش کا بھی اظہار نہیں کیا، جس کی بہت وجوہات ہیں، اس حوالے سے پہلے بھی وضاحت دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار کو منانے کی کوششیں جاری
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں اس لیے نہیں گیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) میں سیاسی مخالفت نہیں تقریباً ایک ذاتی عداوت اور دشمنی کی شکل اختیار ہوچکی تھی اور گالم گلوچ اس طرح ہوتی تھی جس طرح دو دشمنوں کے درمیان ہوتی تھی۔
چوہدری نثار نے کہا کہ اب دیکھیں گے کہ حالات کیا ہیں، عمران خان مجھ پر بہت مہربان ہے، اس وقت بھی عزت دی جب وہ کرکٹر تھے اور کہتے تھے کہ میرے اسکول کے ایک ہی دوست ہیں وہ نثار ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما نے کہا کہ عمران خان کے حوالے سے میرے اچھے احساسات تھے اور اب بھی اچھے احساسات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب میرا یہ خیال ہے کہ کسی ایسی جماعت میں نہ جاؤں جو حکومت میں ہو کیونکہ اگر اقتدار میرا مقصد ہوتا تو پھر میں وزارت داخلہ کیوں چھوڑتا، رکن صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھاتا اور پی ٹی آئی میں شامل ہوچکا ہوتا اور کسی اہم عہدے میں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اقتدار مقصد نہیں ہے تو حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا انتخابات کا اعلان ہوگا تو وہ وقت ہوگا میں پی ٹی آئی کو کنسیڈر کروں گا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘1990 میں جنرل اسلم بیگ نے اسٹریٹجک ڈیفائنس کے حوالے سے بیان دیا جو حکومت کی پالیسی کے خلاف تھا تو چوہدری نثار نے کہا کہ آرمی چیف کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کا عوامی سطح پر اظہار کرے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس بیان اور جوابی بیان کی وجہ سے میرا تعلق خراب ہوا، جنرل آصف نواز سے میرے دو پشتوں سے تعلقات تھے لیکن جب سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا حکم ملا تو انہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا تو صرف میں ہی بولا، ان کے انقلابی دوست کہاں تھے، کوئی بولا ہو تو بتائیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جنرل مشرف سے اس وقت سے واقفیت ہے، جب وہ کرنل تھے، آرمی چیف بنے تو 8 سال ضد لگا کر بیٹھا اور اپنے حلقے کے لوگوں سے کہا کہ یہ 8 سال کا روزہ ہے، اس وقت 8 سال کا پتا نہیں تھا، میں ان کی مخالفت میں کہاں کہاں تک نہیں گیا’۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ‘جنرل پاشا میری بے انتہا عزت کرتے تھے، اچھے جنرل تھے لیکن ایک اصول پر کہ میری پارٹی سمجھتی تھی کہ یہ ہمارے مخالف ہیں تو میں کہاں تک نہیں پہنچا’۔
مزید پڑھیں: لاہور دھماکا:چوہدری نثار نے سیاسی معاملات پر گفتگو ملتوی کردی
ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کے یہ انقلابی دوست تب بات کرتے جب موسم ٹھیک ہو، موسم خراب ہوتو کوئی کچھ نہیں کہتا’۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ‘ہمارے دور حکومت میں موجودہ آرمی سیٹ اپ کا ٹوئٹ آیا، ریجیکٹڈ، تو اس پر نہ تو وزیراعظم اور نہ کسی انقلابی وزیر کا جواب آیا بلکہ میں نے اس پر جواب دیا اور کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ حکومت وقت سے کسی ادارے کا مخاطب ہونا اور یہ جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے، اس لیے مجھے کسی صفائی کی ضرورت نہیں ہے’۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘میں نے پی ٹی آئی اور طاہرالقادری کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی بلکہ رینجرز اور ایف سی اور پولیس کو کہا کہ آپریشن کریں لیکن اس وقت کے وزیراعظم نے پی ٹی آئی اور طاہرالقادری کو ریڈ زون آنے کی اجازت دے دی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس معاملے پر میں نے استعفیٰ دے دیا تھا، اس کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے، میں ان کے آگے جانے کے حق میں نہیں تھا، یہ تو وزیراعظم کی اجازت تھی’۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں آج جتنی تقسیم ہیں، کبھی نہیں تھیں، ہمارے ملک کی معاشی حالت انتہائی سنگین ہے، پھر جیو پولیٹک حالات ایسے ہیں کہ ہم جس طرح چاہتے ہیں وہ مقاصد حاصل کرنے میں خدشات ہیں۔
افغانستان کے حالات سے متعلق انہوں نے کہا کہ افغانستان میں استحکام آیا تو پاکستان میں استحکام آئے گا، ورنہ یہ آخری موقع ہے اور یہ نکل گیا تو خطے میں نقصان ہوگا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حامد کرزئی اور دیگر افغانستان کی اصل قیادت نہیں تھی لیکن اللہ کرے کہ موجودہ سیٹ اپ عوام کے توقعات پر پورا اترے۔