دنیا

نئی افغان حکومت کی شکل واضح ہونے کے بعد اسے تسلیم کرنے کے متعلق فیصلہ کریں گے، امریکا

توقع ہے کہ جو بھی حکومت سامنے آئے گی اس میں حقیقی جامع شمولیت ہوگی، امریکی سیکریٹری خارجہ

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا، افغانستان میں نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے قبل یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ طالبان کی نئی حکومت کیسے بنتی ہے اور وہ کیا پالیسیاں اپناتی ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے اس سے قبل رپورٹ کیا تھا کہ طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر نئی افغان حکومت کی قیادت کریں گے۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے انچارج ملا برادر کے ہمراہ طالبان کے مرحوم بانی ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب اور شیر محمد عباس ستانکزئی شامل ہوں گے۔

واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ میں ان رپورٹس پر تبصرے کے لیے ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے مختلف رپورٹس دیکھی ہیں تاہم ان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ 'یہ کیسی ہوگی، اس میں کون ہوگا اور کون نہیں، لہٰذا میں اس پر اپنا فیصلہ اور تبصرہ محفوظ رکھ رہا ہوں'۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو طالبان کے ساتھ حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو بائیڈن انتظامیہ، افغانستان کے نئے حکمرانوں سے کیا توقع رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'توقع ہے کہ جو بھی حکومت سامنے آئے گی اس میں حقیقی جامع شمولیت ہوگی، اس میں غیر طالبان بھی ہوں گے جو افغانستان میں مختلف برادریوں اور مختلف مفادات کے نمائندے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ حقیقت میں کیا سامنے آتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جتنا اہم حکومت کی شکل ہے اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ حکومت کرتی کیا ہے اور ہم یہی دیکھ رہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئی افغان حکومت کیا اقدامات اٹھائے گی، کیا پالیسیاں اپناتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو امید ہے کہ نئی افغان حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی جو انہوں نے 'سفری آزادیوں، دہشت گردوں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکنے اور خواتین اور اقلیتوں کے حوالے سے کیے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: پنج شیر کا کنٹرول حاصل کرلیا، طالبان ذرائع کا دعویٰ

توقع ہے کہ سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن رواں ہفتے قطر اور جرمنی کا دورہ کریں گے، تاہم ان کے دفتر نے یہ نہیں بتایا کہ وہ قطر میں طالبان حکام سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔

طالبان، قطر میں ایک سیاسی دفتر رکھتے ہیں جہاں طالبان اور امریکی حکام نے دو سال سے زیادہ عرصے تک امن مذاکرات کیے اور فروری 2020 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بائیڈن انتظامیہ نے کابل سے عملہ واپس بلانے کے بعد دوحہ میں افغانستان کے لیے اپنا سفارتی مشن قائم کیا ہے۔

پاکستان کو طالبان کے ساتھ حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی

عملے کی کمی ٹیکس ریکوری میں رکاوٹ ہے، ایف بی آر

کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش کے بعد کے مناظر