1965ء کی جنگ پاکستانی سخن وروں کے سنگ
یہ تحریر ابتدائی طور پر 6 ستمبر 2021ء کو شائع ہوئی جسے یومِ دفاع کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔
تاریخ کتنے ہی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کا ہونا دنیا کو زیر و زبر کردیتا ہے۔ نفع و نقصان اور خیر و شر کے پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں اور زندگی اپنے آپ کو ایک نئے روپ میں تشکیل دیتی ہے۔
یہ نئے خدوخال صرف تاریخ کے دھارے کو موڑتے نہیں بلکہ اس کی کیفیت میں افراد اور قوم ہمیشہ غرقاب رہتے ہیں۔ اس کے بعد کی دنیا خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو گزرے ہوئے انقلاب کا ہر لمحہ لوگوں کی زندگی کے محسوسات میں موجود رہتا ہے۔
1965ء کی 17 روزہ پاک بھارت جنگ بھی کچھ ایسی ہی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ یہ واقعہ ملکِ پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کی تاریخ میں ناقابلِ فراموش حیثیت سے ابھرا اور اہلِ پاکستان کے دل میں اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔
یہ جنگ پاکستان کے لیے ایک کڑی آزمائش تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک کروٹ تھی جس نے پانی کی شفاف سطح پر بے کرانی پیدا کردی۔ یہ سمندر کی ایک ایسی موج ثابت ہوئی جس میں نالہ و شیون اور شور و غوغا ہی نہیں تھا بلکہ اس میں نبضِ قوم کے ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے فن کارانہ تخیل کا اظہار بھی تھا۔ اس میں عقیدت و محبت کے جذبات بھی تھے اور ایسے رسیلے گیت بھی جنہوں نے وطن کی فضا سے انسیت کے جذبے کو پروان چڑھایا۔
ان نغموں میں کہیں قصیدے کی جھلک تھی تو کہیں مرثیے کے عناصر اور کہیں دعاؤں کی مالا جپ کر آنکھوں سے موتیوں کی لڑی پیوستہ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ نعیم صدیقی صاحب نے کیا خوبصورت بات کہی کہ:
1965ء کی جنگ میں غور طلب بات یہ ہے کہ اس معرکے میں شعرا اور ادبا میں ہر قسم کے نظریات سے وابستہ لوگوں نے حصہ لیا۔ اس میں ترقی پسند بھی تھے، اسلامی ادب سے تعلق رکھنے والے ادیب بھی اور جدید شاعری کے علم بردار بھی۔ وسیع تر قومی مفاد میں پاکستان کے دفاع کے لیے تمام تر شاعروں نے ایسے نغمے کہے کہ خاموش بستیوں اور سہمے ہوئے دلوں میں بیداری پیدا ہوگئی۔ تمام قوم کے دل میں ان اشعار سے ایک ایسی حرکت پیدا ہوئی، جس نے سونے والوں کو جگایا اور جو تھک گئے تھے انہیں نئی جان بخشی۔ اس کی ایک جھلک ظہیر کاشمیری کی نظم ’آج کا کھیل‘ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں:
اس جنگ میں پاکستان کی عسکری کامیابیوں اور ناکامیوں کے تجزیے سے قطع نظر اس جنگ کا حاصل اصل میں وہ اتحاد و یکجہتی تھی جو پورے پاکستان میں نمایاں طور پر ہر قلب نے محسوس کی۔ اتنے بڑے پیمانے پر اتحاد و یکجہتی کو پھر کبھی محسوس نہیں کیا گیا۔
اس دور میں اتنی زیادہ شاعری منظرِ عام پر آئی کہ اس کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ ’جنگ ترنگ‘ اور ’جاگ رہا ہے پاکستان‘ جو 1965ء کی جنگ کے حوالے سے شاعری کے ضخیم مجموعے ہیں، ان کے مرتبین کا ایک محدود اندازہ ہے کہ تقریباً 2 ہزار نظمیں صرف اردو زبان میں لکھی گئی ہیں جبکہ دیگر زبانوں میں کی گئی شاعری الگ ہے لیکن بعدازاں یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر ہونے والے تحقیقی کام سے پتا چلتا ہے کہ ان کی تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔
شعرا کے شعری مجموعوں، رسائل وجرائد اور اخبارات میں اس حوالے سے کئی نظمیں موجود ہیں۔ 1965ء کے ان 17 دنوں نے اہلِ پاکستان کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر آمادہ ضرور کیا۔ اس سوچ کی کیفیات اور جذبات کو شاعروں نے بخوبی پیش کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی ادب پہلی دفعہ سچے دل سے ان نظموں میں گویا ہوا تھا۔ یوں بھی رزمیہ شاعری انسانی جذبات اور نفسیات کی عکاس ہوتی ہے۔ خاص کر میدانِ جنگ میں شاعرانہ الفاظ ایک سپاہی کے دل میں موج زن جذبات کو ارفع کردیتے ہیں، وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرتا اور آنے والے مشکل لمحوں کو طے کرنے میں اسے آسانی میسر آجاتی ہے۔ احسان دانش کی نظم کچھ اسی انداز کی حامل ہے۔
صرف اردو ادب ہی نہیں بلکہ عالمی ادب کے مطالعے سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دنیا کا تقریباً ہر بڑا ادب رزمیہ عناصر سے متاثر ہوا ہے اور دنیا کے ہر ادب میں شاہکار فن پارے رزمیہ وصف کے حامل ہیں۔ اصل میں رزم اپنے اندر سماجی اور تہذیبی اعتبار سے انسانی جذبات و احساسات کی شعوری کیفیت لیے ہوئے ہے۔ اسی لیے فردوسی کا ’شاہ نامہ‘، والمیکی کی ’رامائن‘، ویاس کی ’مہابھارت‘ یا گوئٹے کی ’فاؤسٹ‘ میں رزم اور بزم دونوں کی جلوہ گری موجود ہے۔
1965ء کی جنگ کے 17 دنوں میں فنکاروں نے ایسی تخلیقات چھوڑیں جو فن کے اعلیٰ ترین معیار پر پہنچتی ہیں۔ بعض مقامات پر ان نظموں اور غزلوں میں شدتِ تاثر اتنا گہرا ہے کہ آج ماہ و سال کی گردشوں نے ان کی جاذبیت کو کسی طور پر بھی کم نہیں کیا ہے۔ اس موضوع کے تعلق سے لکھی جانے والی یہ نگارشات ہمیں ماضی سے جڑے رہنے اور اعلیٰ ادب کی آبیاری کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ انور حسین انور کی نظم ملاحظہ کریں:
جنگِ ستمبر نے پاکستانی قوم کو متحد کردیا تھا۔ ایک مدت سے جاری پاک بھارت چپلقش نے پوری پاکستانی ملت کو اپنی سالمیت اور بقا کی جدوجہد کے لیے آمادہ کیا۔ ہر شاعر کی آواز وطن کی سالمیت اور بقا کی دعا میں ڈھل گئی۔ یہ جنگ محض جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت تک محدود نہ رہی بلکہ نظریہ، تاریخ اور سلامتی کی آرزو نے مل کر پوری قوم کو اس جارحیت کے خلاف صف آرا کیا۔
ان نظموں کا بیانیہ کم و بیش تخیل اور جذبے کے ایک ہی طرز احساس میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حبیب سبحانی کی نظم قوم کی آبرو اور محاذِ جنگ پر موجود دلاوروں کی بہادری کو مہمیز دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ نظم دشمن کے سر غرور کو توڑتی اور چمن کی آبرو کو خون سے سینچنے کی تلقین کرتی ہے۔
اسی طرح محشر بدایونی نے ’جاگ رہا ہے پاکستان‘ جیسی باکمال نظم لکھی۔ یہ نظم پیکر ایمان آرزو ہے۔ واقعاتی نوعیت کے باوجود اس میں ایک ایسی لہر موجود ہے جس میں ملتِ پاکستان کی مستقل کیفیات کو ہر لمحے کے لحاظ سے سمو دیا گیا ہے۔
جنگِ ستمبر میں اہلِ سخن نے گیتوں، غزلوں، نظموں اور رباعیوں کے ذریعے میدانِ جنگ میں پیش کی جانے والی دادِ شجاعت کی کہانی اس طرح پیش کی کہ اس کی گونج بھارت میں بھی سنائی دینے لگی۔ ان نغموں کے تاثر سے بے چین ہوکر آل انڈیا ریڈیو نے اردو زبان میں ایک خصوصی پروگرام نشر کیا جس میں شاعر شری جگن ناتھ آزاد نے پاکستانی شعرا کے نام طعن و تشنیع سے بھری ایک نظم کہی جس کے جواب میں رئیس امروہوی نے ’جواب آں غزل‘ نے نام سے عمدہ غزل کہی۔
یہ نظمیں قوم کے ایمان، اتفاق، محبت اور بے لوث خدمت کے احساسات کا نفسیاتی بیان ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں پاکستانی قوم کے ذہن و دل نے جو تاثر قائم کیا اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہی گیر بچے جمالی نے بھی نظم کہی۔ یہ نظم کسی شعری اصول سے لگا تو نہیں کھاتی لیکن اس میں دنیا کے عظیم ترین ادب کی تمام جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
ہر آدمی بڑا شاعر اور ادیب نہیں بن سکتا کیونکہ یہ تو قدرت کی عطا ہے لیکن جذبات سے بھرے ہوئے دل حالتِ جنگ میں ترنگ کی مجذوبانہ کیفیت سے فطری طور پر بھر جاتے ہیں۔ یہ عمل بذات خود ایک معجزہ ہے۔ ایسا ہی طرزِ عمل قوموں کی زندگی میں گونگوں کو گویائی، اندھوں کو راستہ سجھانے اور نیند کے ماتوں کو بیدار کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ اہلِ سخن اور کم سخن دونوں کی جانب سے اس جنگ میں ایسے نغمے پھوٹے کہ جس نے واماندہ دماغ کو اظہار کا سلیقہ بخش دیا۔
لکھاری جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایک تحقیقی مجلے ششماہی تحصیل کے نائب مدیر بھی ہیں۔ پاکستان کے معروف مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔