برسٹل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارگرد موجود شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال کو متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔
دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو جب کورونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو اعضا میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی شریانوں کے خلیات کو حاصل کرکے انہیں اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔
اس پروٹین کو کورونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد خارج کرتا ہے۔
اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا ہے، پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی صلاحٰیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔
تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک پروٹین کے زیراثر آنے پر ان کا علاج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی 147 نامی ریسیپٹر کو بلاک کرکے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ورم کا باعث بننے والا کیمیکل pericytes پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں موجود ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جاسکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک تھام کے ذرائع تلاش کیے جاسکتے ہیں۔