پہلی اینگلو افغان جنگ: ایک جنگی سفر کی کتھا (تیسرا حصہ)
اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے
جب امیر دوست محمد خان افغانستان سے لدھیانہ کی طرف بڑھے تو کمپنی سرکار کو لگا کہ ڈر اور سراسیمگی کے جو گہرے کالے بادل چھائے ہوئے تھے وہ چھٹ گئے ہیں۔ افغانوں کے جو چھوٹے بڑے حملے جاری تھے وہ اتنی بڑی پریشانی کا باعث نہیں تھے۔
جاڑوں کا موسم قریب آرہا تھا اور اس ٹھنڈے موسم کو گزارنے کے لیے گوری سرکار کے ساتھ شاہ شجاع بھی جلال آباد کے نچلے زمینی علاقوں کی طرف چل پڑے۔ ان دنوں برطانیہ کے سفیر نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس میں فوج کی رضامندی شامل نہیں تھی، اور یہی بڑی غلطی تھی جو آنے والے دنوں میں گوری سرکار کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب بننے والی تھی۔
سفیر نے حکم دیا کہ بالا حصار کا قلعہ چھوڑ کر فوج کابل سے دُور اپنی چھاؤنی بنائے۔ یہ جگہ وہاں تھی جہاں پٹھان نوابوں کے باغات اور معروف بزرگوں کے مقبرے تھے۔ وہ شاید یہاں کے لوگوں کی نفسیات کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اگر یہاں کے لوگوں کی نفسیات اور ان کے مزاج کو سمجھتے تو یقیناً ایسے احکامات جاری نہ کرتے۔ ان کے ذہن میں ہندوستان تھا، جہاں وہ اپنی من چاہی جگہ پر چھاؤنی قائم کردیتے، لیکن چونکہ ہندوستان باہر سے آنے والی کئی قوموں کی آماجگاہ بن گیا تھا اس لیے وہاں کے لوگوں کو ایسے کاموں سے کم فرق پڑتا تھا۔ مگر افغانستان کی تاریخ، اس کے زمینی حالات اور وسائل پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہاں کے رہنے والوں کی اپنی ایک الگ طبیعت ہے اور وہ چھاونیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ولیم میکناٹن بہت ذہین رہا ہو مگر افغانستان کے زمینی حقائق سے شاید نابلد رہا اسی لیے وہ ایسے متعدد فیصلے کرتا رہا جن کو آگے چل کر وقت نے غلط ثابت کیا۔ بلاشبہ طاقت کا غلط اندازہ آپ سے غلط فیصلے کروانے میں پیش پیش رہتا ہے۔
سر جارج میکمین لکھتے ہیں کہ ’جنرل میکناٹن نے شاہ شجاع کو ہر غلط کام کرنے کی چھوٹ دے رکھی تھی، غلط کاموں میں شاہ کے امیر اس کے ساتھ تھے اور اس سے بھی 2 قدم آگے تھے۔ ان کے غلط کاموں اور ناجائز ٹیکسوں کی وصولی کی وجہ سے عوام میں غصہ بڑھتا جا رہا تھا، تب برطانیہ کے سفیر نے ایک نئی حکمت پر عمل شروع کیا۔ یہ حکمتِ عملی وقت و حالات کے اعتبار سے تو ٹھیک تھی مگر وہاں کے امیروں کو اس فیصلے پر غصہ تھا۔
اس حکمتِ عملی کے تحت فیصلہ یہ کیا گیا کہ چونکہ حالات روز بروز شاہ کے کنٹرول سے نکلتے جا رہے ہیں اس لیے ملکی انتظام کے لیے فوج اور دوسری مسلح ایجنسیاں میدان میں اتاری جائیں۔ اس مقصد سے فوج میں بھرتی کی جائے جن کی تنخواہیں شاہ شجاع کی حکومت کو ادا کرنی پڑیں گی۔ علاقائی اعتبار سے یہ فیصلہ غلط تھا، جس کے ملکی معاشی حالات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے والے تھے‘۔
محمد اسماعیل ریحان لکھتے ہیں کہ '1841ء کا برس انگریزوں کے لیے بھیانک تھا۔ ہر دن کا سورج افغانوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو پہاڑوں میں متحرک دیکھ رہا تھا۔ ان دنوں افغانستان میں انگریزوں کی بڑی طاقت موجود تھی۔ کابل میں 20 ہزار، جلال آباد میں 5 ہزار، غزنی میں 10 ہزار اور قندھار میں 15 ہزار سپاہی ہر دم تیار رہتے تھے۔ ان کے سوار اور پیادوں کی الگ الگ رجمنٹیں تھیں۔ صحرائی اور کوہستانی جنگ کے ماہر سپاہیوں کے الگ الگ اسکواڈ تھے، اور کم از کم 70 توپیں انگریز لشکر کے ساتھ ہوتی تھیں۔ شاہ شجاع تو انگریزوں کا لایا ہوا کھلونا تھا اور دوست محمد خان کے یہاں سے چلے جانے سے مقامی لوگوں میں مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ مگر خون میں فطرت کی سکھائی ہوئی جو جنگجویانہ خُو تھی، وہ قدیم قبائلی حرب اپنا کر فرنگیوں کو چوٹیں لگا رہے تھے'۔
لیڈی سیل کی وہ تحریر جو اس نے افغانوں کو قید کرنے کے زمانے میں قلمبند کی تھی، ان دنوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا انتہائی شاندار وسیلہ ہے کیونکہ جنرل سر جارج میکمین کی تحریر میں کمپنی کے وہ ملازمین جو ہندوستان میں تھے ان پر شدید غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ مگر لیڈی سیل کی تحریر کسی پرسکون ندی کی طرح بہتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ 'ہر افغان جنگجو کے پاس مختصر سا سامان ہوتا، جس میں بارود کا ڈبہ، بُھنی ہوئی گندم، پرانی لمبی نال والی بندوقیں اور ایک چھوٹی تلوار ہوتی تھی۔ وہ کئی کئی دنوں تک پہاڑیوں کا سخت سفر کرسکتے تھے اور انگریزوں کی چوکیوں پر حملہ کرکے فوراً غائب ہوجاتے۔ وہ حیرت انگیز گھات لگانے والے تھے، وہ پہاڑیوں سے انگریز لشکر پر اچانک ایسے ٹوٹ پڑتے جیسے بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ پر لپکتا ہے'۔
1841ء کی ابتدا میں ’گلزیوں اور درانیوں نے گوری سرکار سے ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کی، مگر جنرل ناٹ نے ان کو سخت سزا دے کر اس ٹکراؤ کو ختم کردیا۔ یہ برس آگے چل کر کچھ اچھا نہیں گزرنے والا تھا۔ جنرل میکمین لکھتے ہیں کہ 'ستمبر 1841ء میں برطانیہ کا سفیر میکناٹن خوش تھا کہ اس نے ایک جھوٹی رپورٹ انگلینڈ بھیجی تھی کہ یہاں موکور سے خیبر لک تک امن ہے اور انگریزوں کا ہر جگہ پر احترام کیا جاتا ہے۔ انگریز جہاں پہنچتے ہیں وہاں ان کا عزت اور پیار کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے، یہاں انگریزوں کا مستقبل روشن ہے۔ یہاں کے لوگ بچوں جیسے ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھنا پڑے گا‘۔
اس رپورٹ کے بعد میکناٹن کو بمبئی کا گورنر مقرر کیا گیا۔ میکناٹن کے پاس جب گورنر بمبئی کا عہدہ سنبھالنے کا حکم نامہ پہنچا تو بالا حصار قلعے سے خوشی میں توپیں چھوڑی گئیں اور موسیقی کے جیسے چشمے پھوٹ پڑے۔ ان کے عہدے پر الیگزینڈر برنس کو عبوری طور پر مقرر کردیا گیا۔ یہ فیصلہ گوری سرکار کا تھا۔ مگر پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اونچائی پر اڑنے والے وقت کے باز کی آنکھوں نے نہ صرف یہ سب دیکھا، بلکہ یہ دیکھ لیا تھا کہ آنے والے دنوں میں خون کی سُرخ آندھیاں اٹھنے والی ہیں جس میں بہت کچھ خس و خاشاک کی طرح اڑنے والا ہے اور میکناٹن کی بمبئی پہنچنے کی تمنا کو کبھی پَر نہیں لگ سکیں گے۔
سال کا آخری حصہ انگریزوں کی غیر فطری حکمتِ عملی کی وجہ سے انتہائی مشکل ترین ثابت ہوا۔ برطانیہ میں بیٹھی کمپنی سرکار افغانستان پر ہونے والی رقم کو اضافی بوجھ سمجھ رہی تھی، جس کی وجہ سے سفیر کو آرڈر دیا گیا کہ پٹھانوں کو دی جانے والی رقم میں کمی کی جائے۔ جب رقم کم ملنے لگی تو انہوں نے خیبر سے جلال آباد تک سارے درے بند کردیے اور کابل میں یہ انتظامی تبدیلی عمل میں آئی کہ جنرل کاٹن کی جگہ جنرل ایلفن اسٹون کو سپہ سالار مقرر کیا گیا۔
یکم نومبر 1841ء میں کابل کے 'کوچہ باغ نواب' کے ایک بڑے مکان میں سارے ملک کے مجاہدین کے نمائندے مشاورت کے لیے جمع ہوئے جس میں سربراہی، امیر دوست کے بھتیجے سردار عطا محمد کو سونپی گئی۔ اسے ’نواب‘ کا لقب دیا گیا جبکہ امین اللہ لوگری کو اس کا نائب مقرر کیا گیا اور اسی مشاورتی میٹنگ میں کابل میں انگریزوں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
2 نومبر (بروز منگل، 17 رمضان 1257ھ) نہ کابل کی گلیوں کے لیے عام دن ثابت ہوا اور نہ الیگزینڈر برنس اور اس کے خاندان کے لیے۔ تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ 'برنس نے پرانے شہر کے مرکزی علاقے میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے بھائی لیفٹیننٹ چارلس برنس، میجر ولیم براڈ فوٹ اور خاندان کے ساتھ وہیں پر اپنے گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس کے گھر کے قریب جو گیریژن ٹریژری کی عمارت تھی جہاں کابل کی پوری فوج کی تنخواہوں کی کل رقم رکھی جاتی تھی، اس پر ہونے والے حملے سے پہلے برنس کو موہن لال نے حملے کے ممکنہ خطرے سے آگاہ کردیا تھا، مگر برنس نے گھر چھوڑنے سے انکار کردیا۔ کبھی کبھی زندگی میں غلط اندازے جو آپ کی خوش فہمیوں کے مرہون منت ہوتے ہیں وہ آپ کو لے ڈوبتے ہیں۔ اس کے گھر والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا اور برنس، میجر براڈ اور چارلس برنس کے سر کابل کے بازار کے مرکزی چوک پر لٹکا دیے گئے'۔
خون میں ڈوبی یہ سُرخ خبر جب میکناٹن تک پہنچی تو وہ شاید حد سے زیادہ ڈر گیا۔ اس نے فوراً شاہ شجاع کو پیغام بھیجا کہ 'اگر موجودہ حالات کنٹرول نہیں کیے گئے تو آنے والے دنوں میں حالات اور خراب ہوں گے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ آپ ان فسادیوں کو فوری طور پر گرفتار کروائیں اور جیل میں بند کریں'۔
بادشاہ نے فوری طور پر میٹنگ بلوائی اور حکم دیا کہ 'آپ فتح جنگ کے ساتھ جاکر فسادیوں کو روکیں اور اگر وہ بات نہ مانیں تو ان کو قتل کردیا جائے'۔
بادشاہ کے یہ احکامات قلعے کی حفاظتی دیواروں اور محل کی ٹھنڈی چھاؤں میں باآسانی جاری کردیے گئے تھے۔ تاہم قلعے سے باہر کا نظارہ کچھ اور تھا۔ فوج جیسے ہی قلعے سے نیچے اتری تو دیکھا کہ کابل جنگ کا میدان بنا ہوا ہے جس میں مجاہدین کا پلہ بھاری تھا۔ بادشاہ کے بیٹے اور فوج نے قلعے کی جانب واپسی کو ہی مناسب سمجھا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حالات کے پیش نظر اپنے برائے نام وزیرِاعظم میکناٹن کو یہ پیغام بھجوایا کہ 'باغیوں کو کنٹرول کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے اس لیے میں اپنے سارے اختیارات آپ کے حوالے کرتا ہوں، آپ جو مناسب سمجھیں وہ فیصلہ کریں میں آپ کے ساتھ ہوں'۔
اگر تھوڑی گہرائی سے ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو شاہ شجاع کی ایک مہرے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں تھی۔ گوری سرکار شاہ شجاع کو ایسی جھولی کے طور پر استعمال کر رہی تھی جس میں اپنے سارے گناہ ڈال سکے۔ معروضی لینڈ اسکیپ میں سب کچھ کمپنی کی سرکار کی مرضی اور مفادات کے تحت ہو رہا تھا مگر لکھا بادشاہ کے کھاتے میں جا رہا تھا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ کابل کے عمائد نے فیصلہ کیا کہ شاہ شجاع اور اس کے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
سر جارج میکمین اس ساری ناکامی کو لارڈ آکلینڈ کے کھاتے میں ڈالتا ہے اور اسی کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے، وہ رقم طراز ہے، 'لارڈ آکلینڈ کی غلط حکمتِ عملی، میکناٹن کا بیہودہ طریقہ کار اور جنرل ولیم ایلفسٹون کی حالات کنٹرول کرنے میں نااہلی، فوج میں نظم و ضبط کی شدید کمی، بڑے فوجی عملداروں کی بے راہ روی ایسے حقائق ہیں جن کی وجہ سے کابل کی گلیوں میں افغانی بغیر کسی ڈر کے دندناتے پھرتے تھے۔ دوسری بڑی بے وقوفی ان صاحبوں نے یہ کی کہ فوجی چھاؤنی کے قریب، رسد والے قلعے کا بالکل خیال نہیں رکھا۔ جس کی وجہ سے وہ افغانوں کے ہاتھ لگ گیا۔ یہ انتہائی اہم جگہ تھی جہاں سارا رسد کا سامان ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ کسی صاحب نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اس لیے اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ فوج کے اعلیٰ افسران کے ذہن میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ کابل کو گنوا چکے ہیں'۔
برنس اور اس کے خاندان کو قتل کیے جانے کے واقعے کی عکاسی کے لیے فنکاروں نے جو خاکے بنائے ہیں، وہ اگر آپ دیکھ لیں تو ان لمحات کی تپش آپ کو آج بھی محسوس ہوگی۔ آپ اگر تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کریں تو آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ جب حالات ایسے ہوں کہ لوگوں کا انبوہِ کثیر جمع ہوجائے تو انسان کے اس گروہ کی کیفیت انتہائی وحشیانہ ہوجاتی ہے۔ وہ راستے میں ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہاتا چلا جاتا ہے۔
نومبر کے ان ابتدائی دنوں میں مجاہدین کی کیفیت بھی کچھ ایسی تھی۔ 3 نومبر کو مجاہدین نے کابل کے قلعے چہار باغ اور قلعہ نشان خان سمیت پر قبضہ کرلیا تھا۔ کابل کا قلعہ ہاتھ سے جانے کا مقصد یہ تھا کہ گوری سرکار کی کہانی یہاں پر آکر ختم ہوگئی۔ مگر جنرل ولیم ایلفسٹون اور شاہ شجاع نے مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں عبداللہ خان سے قلعہ واپس لینا چاہیے۔ عبداللہ خان سے سخت ٹکراؤ کے بعد کابل کے قلعے پر ایک بار پھر گوری سرکار کا قبضہ ہوگیا اور جن دیگر چھوٹے چھوٹے قلعوں پر مجاہدین نے قبضہ کیا تھا وہ بھی انگریز سرکار نے واپس لے لیے۔
اسی طرح ایک بار پھر حالات انگریز سرکار کے ہاتھ میں آگئے اور کچھ دنوں تک کابل میں سکون رہا۔ خاموشی ایسے حالات میں کوئی اچھا شگون نہیں ہوتا۔ ایسا ہی ہوا۔ مجاہدین ایک بڑے لشکر کے ساتھ کابل کے قلعے پر حملہ آور ہوئے۔ قلعے سے 2 میل دُور جنگ کا میدان سجا۔ ہزاروں سر ایسے کٹے جیسے گیہوں کے خوشے کٹتے ہیں۔ اس جنگ میں یہ میدان انگریز سرکار نے جیتا۔ کچھ دنوں کے بعد خبر آئی کہ کابل سے 2 میل دُور 'بی ماہرو' قلعہ پر افغانوں نے حملے کرنے شروع کردیے ہیں۔ اس قلعے میں میکناٹن اور گوری سرکار کے اہم لوگ رہ رہے تھے۔ محل و قوع کے حوالے سے یہ انتہائی اہم اور مضبوط قلعہ تھا مگر مسلسل حملے یقیناً اچھی خبر نہیں تھی اس لیے جنرل ایلفسٹون فوج اور توپوں کے ساتھ اس طرف چل پڑے۔ جنگ کے بعد بھی قلعہ گوری سرکار کے پاس رہا۔ افغانوں کے اہم لیڈر عبداللہ خان اچکزئی کو پیٹھ میں کسی نے گولی ماردی۔
کس نے گولی ماردی؟
سردار عبدالعزیز نے۔
کیوں؟
اس کیوں کا جواب کچھ اس طرح ہے: ہوا کچھ یوں کہ رسد گاہ پر قبضہ کمپنی مشینری کے لیے ایک کڑوی گولی تھی جو مجبوراً ان کو نگلنی ہی پڑی۔ اندرونی طور پر گوری سرکار ان لوگوں کی تلاش میں جُٹ گئے جن کو پیسوں سے خریدا جاسکے۔ پھر قابلِ اعتماد لوگوں کو خریدا گیا اور لیڈرشپ کے خاتمے کے لیے انہیں ہدایات دی گئیں جن پر انہوں نے عمل کرنا شروع کردیا۔ میر مسجدی کو کرائے کے قاتل نے کسی طریقے سے زہر دے کر مارا، دوسرے لیڈر جو جلال آباد یا دیگر مقامات پر تھے ان کو پیٹھ میں غداری کا خنجر گھونپ کر مار دیا گیا۔ عبداللہ خان اچکزئی کو ایک غدار سردار عبدالعزیز نے گولی مار کر قتل کیا۔ یکے بعد دیگرے قتل کے واقعات کی وجہ سے مجاہدین کے لیے انتہائی مایوس کن صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔ پھر اچانک اس سارے منظرنامے میں ایک کردار نمودار ہوتا ہے جس سے حالات پھر تبدیلی کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔
امیر دوست محمد خان بارکزئی کا بیٹا اکبر خان (جو بعدازاں وزیر اکبر خان کے نام سے مشہور ہوا تھا)، وہ بخارا میں قید تھا۔ جب افغانستان کی کشیدہ صورتحال کی خبر بخارا کی گلیوں تک پہنچی تو وہاں کے عالموں کا ایک وفد بخارا کے بادشاہ امیر نصراللہ کے پاس گیا اور اکبر خان کی رہائی کی گزارش کی۔ اس طرح اکبر خان جیل سے آزاد ہوکر سبلخ، بامیان اور غور سے مختلف سرداروں کے مسلح گروہ اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے کابل پہنچا۔ انہی دنوں سردار محمد شاہ غلزئی بھی ایک بڑی جماعت کے ساتھ کابل پہنچا۔
ان لوگوں کے آنے کے بعد افغانوں میں جو مایوسی کی کیفیت پھیلی تھی، اس سے وہ نکل آئے اور حالات ایک دفعہ پھر ایسے بدلے کہ کمپنی سرکار اور شاہ شجاع کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کمپنی سرکار کے لیے سب سے بڑی پریشانی کا سبب بننے والا ٹھنڈا موسم تھا کیونکہ افغانوں کے لیے یہ برفباری یا موسم کچھ نیا نہیں تھا۔ وہ ہزاروں برسوں سے ان موسموں کے عادی تھے مگر کمپنی کی فوجیں جو چوں چوں کا مربہ تھیں ان کے لیے یہ انتہائی سخت موسم تھا۔
جب میکناٹن کو اپنے جاسوسی ذرائع سے یہ رپورٹ ملی کہ مجاہدین ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور قلعہ بی ماہرو اور بالا حصار پر دھاوا بولنے کی تیاریوں میں مشغول ہیں تو میکناٹن کے پاس بات چیت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ گوری سرکار ایک ایسی بند گلی میں آکر کھڑی تھی جس کے دروازے کی چابی اب اکبر خان کے پاس تھی۔
میکناٹن نے بات چیت شروع کی اور یہ بات مان لی کہ انگریز ہتھیار ڈال کر افغانستان سے نکل جائیں گے۔ شاہ شجاع اگر انگریزوں کے ساتھ رہنے میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے تو اسے لدھیانہ میں رہائش دی جائے گی البتہ افغان حکومت سالانہ اسے خرچے کے لیے ایک لاکھ روپے ادا کرے گی۔ اس کے بدلے میں امیر دوست کو واپس کابل بھیج دیا جائے گا۔ یہ بات چیت 11 دسمبر کو ہوئی اور 2 دنوں کے بعد طے پانے والے فیصلوں پر عمل شروع ہوا۔
قلعہ ریکا اور قلعہ ذوالفقار، اسلحے اور اناج سے بھرے گودام افغانوں کے حوالے کیے گئے اور 6 انگریز افسر یرغمال بن کر مجاہدین کے پاس آگئے۔ 14 دسمبر کو سردار احمد خان، بالا حصار قلعے میں محصور 5 ہزار انگریز سپاہیوں کو قلعہ بی ماہرو میں جنرل میکناٹن کے پاس لے آیا تاکہ انگریز یہاں سے درہ خیبر جانے کی تیاریاں کریں۔
جب 5 ہزار سپاہی میکناٹن کے پاس آگئے تو اس نے سردی کا موسم گزارنے اور افغانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے ایک چال چلی۔ ایسی خفیہ چالیں اکثر کامیاب ہوجاتی ہیں اور بازی پلٹ دی جاتی ہے۔ میکناٹن کو ایسی چالوں کا شاید اچھا تجربہ تھا. اس نے ایک خفیہ خط اکبر خان کو لکھا جس کی اہم شقیں یہ تھیں:
درہ خیبر سے درہ بولان تک تمام مشرقی افغانستان کی حکومت شاہ شجاع کو دے دی جائے گی اور اس کا انتظام محمد اکبر خان کی وزارت میں چلے گا۔
- امیر دوست محمد خان کو کابل بھیج دیا جائے گا۔ کابل، مغربی اور شمالی افغانستان کا حکمران وہی ہوگا۔ ان کی وزارت دونوں باپ بیٹا مل کر طے کرلیں گے۔
- افغان حکومت کا نیا نظام طے ہوجانے کے بعد انگریز کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔
- محمد اکبر خان کو 12 لاکھ روپے فی الفور ادا کیے جائیں گے اور بعدازاں سالانہ 2 لاکھ ادا کیے جائیں گے۔
- محمد اکبر خان مجاہدین کے قائد نائب امین اللہ لوگری کو فوراً گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالے کردے گا اور باقی تمام مجاہد رہنماؤں کو کابل سے نکال دے گا۔
اکبر خان نے یہ ساری باتیں سرداروں کے سامنے رکھیں۔ تب پتا چلا کہ اس طرح کے چند خطوط دیگر سرداروں کو بھی لکھے گئے ہیں۔ بہرکیف سب نے اس سازش کو سمجھتے ہوئے اپنا رویہ ایسا رکھا جیسے کسی کو کچھ پتا نہیں اور 23 دسمبر 1841ء کو میکناٹن سے بات چیت کرنے پر راضی ہوئے۔
یہ ملاقات افغانوں اور کمپنی سرکار کے لیے انتہائی اہم ثابت ہونے والی تھی، شاید اسی لیے اس ملاقات کا احوال بہت ساری کتابوں میں موجود ہے۔ کچھ لفظی ہیر پھیر کے ساتھ اس ملاقات کی تفصیلات تمام کتابوں میں یکساں ملتی ہیں۔
مگر میں آپ کو اس ملاقات کا احوال محترم محمد اسماعیل ریحان کے لفظوں میں سناتا ہوں۔ ان کے مطابق 'اب اکبر خان نے میکناٹن کو پیغام بھیج کر مذاکرات کے لیے وقت مانگا۔ میکناٹن نے سفارتی ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا 'اب تک سابقہ معاہدے کی دستاویز افغان سرداروں کے پاس باقی ہے، پہلے آپ ان سے اقرار نامہ لکھوائیں کہ وہ آپ کو نئے مذاکرات کے لیے نمائندہ مان رہے ہیں'۔
اکبر خان نے امین اللہ خان لوگری اور دیگر رہنماؤں سے اپنی نمائندگی کا تحریری منظوری کا رقعہ لکھوا کر 22 دسمبر کی شب اپنے نائب سردار احمد کے ہاتھ جنرل میکناٹن کو ارسال کردیا اور اگلی صبح مذاکرات قلعہ بی ماہرو اور قلعہ محمود خان کے درمیان رکھے گئے۔
23 دسمبر 1841ء کی صبح جنرل میکناٹن، کیپٹن لارنس، کیپٹن ٹریور اور کیپٹن میکنزی کے ساتھ قلعہ بی ماہرو کی ناقابلِ تسخیر فصیل سے باہر نکلا، جنوب کی طرف کچھ فاصلے پر سردار اکبر خان، محی الدین خان، خدا بخش خان اور محمد شاہ خان غلزئی مذاکرات کے لیے پہنچے۔ گفتگو کا آغاز ہوا۔ اکبر خان نے بولنا شروع کیا مگر وہ کسی معاہدے پر بات کرنے کے بجائے، انگریزوں کو ان کے مظالم، سازشوں اور بدعہدیوں سے متعلق باتیں کر رہا تھا۔ 'اب انگریزوں کے کسی قول و قرار کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی، آپ لوگ ہم کو آپس میں لڑوانے اور اپنے غاصبانہ قبضے کو طویل کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے'۔
پھر اس نے جنرل میکناٹن کے سامنے اس کی دستخط شدہ دستاویزات پیش کیں جن میں سے ایک افغانستان سے انخلا کا معاہدہ اور دوسرے میں اسے 2 ٹکڑے کرنے کا ایجنڈا تھا۔ اکبر خان بہت دیر گوروں کے چھل کپٹ سے متعلق حقائق بیان کرتا رہا۔ 'اب ہم تمہارے کسی وعدے پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ ہاں ایک صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تمہیں یرغمال بنالیں اور تم برطانوی فوج کے مکمل انخلا تک ہماری تحویل میں رہو'۔ یہ کہہ کر اکبر خان نے سپاہیوں کو اشارہ کیا کہ وہ میکناٹن اور دیگر انگریز افسران کو حراست میں لے لیں اور ساتھ ہی اس نے میکناٹن کا ہاتھ پکڑا اور اسے کابل شہر کی طرف لے جانے لگا۔ میکناٹن نے مزاحمت کی کوشش کی تو سردار احمد خان آگے بڑھا اور اس کا دوسرا ہاتھ دبوچ لیا۔
دسمبر 1841ء کا واقعہ کمپنی سرکار کبھی نہیں بھولی اور جب تک یہ زمانہ ہے کتابیں ان حقائق کو بھولنے نہیں دیں گی۔ میکناٹن، جس کو اس وقت اکبر خان ہاتھ سے پکڑ کر کابل کی گلیوں کی طرف لے جارہا ہے، کچھ گھنٹوں میں وہاں ایک بڑا تاریخی حادثہ رونما ہونے والا ہے، جس نے کمپنی سرکار کی گردن میں جو غرور کی کیل گڑی تھی وہ نکال دی۔ ہم جلد لوٹ آتے ہیں کابل کی ان گلیوں میں جہاں بہت کچھ خس و خاشاک ہونے والا ہے۔
حوالہ جات:
- 'تاریخ افغانستان و سندھ'۔ مرتب: میر اشرف علی گلشن آبادی۔ 1845ء۔ بمبئی
- ’تاریخ افغانستان‘ (جلد اول)۔ مولانا محمد اسماعیل ریحان۔ المناہلپبلشرز۔ کراچی
- Army of The Indus: In the expedition to Afghanistan. By: MajorW.Hough. 1841, London
- The Lure of The Indus. By: L.G Sir George MacMunn. 1933, London
- A Journal of the Disasters in Afghanstan 1841-42. Lady Sale. London1843
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔