افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی تعاون درکار ہے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں اپنے جرمن ہم منصب ہیکو ماس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے عالمی برادری کے تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے جرمن وزیر خارجہ کو پاکستان مدعو کیا ہے جہاں وہ صورتحال کا بہتر اندازہ لگا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ آپ کو ایک بہت اچھا جامع نظریہ دے گا کہ چیلنجز کیا ہیں، خدشات کیا ہیں، مواقع کیا ہیں اور آنے والے دنوں میں کیا کرنے کی ضرورت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے، عالمی برادری کو مشغول رہنا چاہیے، انسانی امداد کا بہاؤ برقرار رہنا چاہیے، افغانستان میں معاشی تباہی نہ ہونے دیں'۔
وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ جرمنی اس حوالے سے درست فیصلے کرے گا۔
اہم تجارتی شراکت دار
جرمنی کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جرمنی پاکستان میں ایک اہم سرمایہ کار رہا ہے اور یورپی یونین کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کے ساتھ تجارت کو مزید بڑھانے کے امکانات موجود ہیں اور بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں دونوں ممالک اقتصادی روابط کو فروغ دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں 20 سالہ امریکی جنگ اختتام پذیر، طالبان کا جشن
ان کا کہنا تھا کہ 'خصوصی اقتصادی زونز میں ایسے مواقع موجود ہیں جن سے جرمنی کو فائدہ اٹھانا چاہیے'۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستانیوں کے لیے فوری جرمن ویزا بھی اہم مددگار ثابت ہوگا۔
انخلا کی کوششیں
ہیکو ماس، جو افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے، کا کہنا تھا کہ 'طالبان جامع حکومت بنانے کا وعدہ کیا ہے تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ان کے وعدے آنے والے دنوں میں قابل اعتماد ثابت ہوتے ہیں یا نہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہمارے لیے اہم ہے کہ تمام افغان، یہاں تک کہ وہ جو طالبان کی حمایت نہیں کرتے، اس حکومت میں نمائندگی حاصل کرسکیں اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا طالبان اس کو مدنظر رکھتے ہیں یا نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کابل ایئرپورٹ کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد چارٹر پروازوں کے انتظام کے لیے دیگر کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ لوگ زمینی راستوں سے افغانستان کی سرحدوں پر سفر کر رہے ہیں اور ہمیں اگر وہ اہل ہیں تو ان لوگوں کو جرمنی لانے کے لیے طریقہ کار کی ضرورت ہے '۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اسی مقصد کے لیے دوحہ اور قطر بھی جائیں گے۔
انہوں نے کابل سے انخلا میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مزید کہا کہ جرمنی افغانستان کے پڑوسی ممالک کی مدد کے لیے تیار کھڑا ہے اور وہ اس بحران کے وقت میں اسے ترک نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل
ہیکو ماس نے کہا کہ جرمنی افغانستان سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا کرتا رہے گا۔
اس سے قبل سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے جرمن وزیر خارجہ کی ایک ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں بتایا گیا کہ شاہ محمود قریشی نے دفتر خارجہ (ایف او) میں ان کا استقبال کیا اور انہوں نے وہاں ایک پودا بھی لگایا۔
گزشتہ روز دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ہیکو ماس اور شاہ محمود قریشی افغانستان میں تازہ ترین پیش رفت پر سرکاری سطح پر بات چیت کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کی ابتر صورتحال پر پاکستان کے نقطہ نظر کو شیئر کریں گے اور اس کے مختلف پہلوؤں سے نمٹنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ دونوں وزرا سے سیاسی، اقتصادی اور تجارت، سلامتی، دفاع، ثقافتی اور تعلیمی شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے معاملات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔
دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ دورے کے دوران ہیکو ماس دیگر اعلیٰ سطحی معززین سے بھی ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا نے افغانستان سے اپنے فوجیوں کا اںخلا مکمل کرلیا ہے اور افغانسگتان میں جاری 20 سالہ جنگ کا اختتام ہوگیا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان اپنے پڑوسی ملک میں امن کی بحالی کے لیے عالمی برادری کے قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔
مزید پڑھیں: کابل: امریکی انخلا حتمی مرحلے میں، طالبان ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کیلئے تیار
اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر شاہ محمود قریشی گزشتہ ہفتے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کے چار ملکی دورے پر روانہ ہوئے تھے۔
دورے کے اختتام کے بعد وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ افغانستان کے پڑوسی کابل کی صورت حال سے 'مکمل طور پر آگاہ' ہیں اور اس مسئلے کی طرف ان کا نقطہ نظر 'حقیقت پسندانہ' ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے چار ملکی دورے کے دوران افغانستان کے بارے میں ان کے خیالات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اگر افغانستان میں امن اور استحکام ہوگا تو پورے خطے کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔