کاروبار

16 برس میں پہلی مرتبہ قومی بچت اسکیم سے نکالی گئی رقوم، جمع کروائے گئے فنڈز سے متجاوز

قومی بچت اسکیم کے تحت خالص بچت سال 05-2004 کے بعد پہلی مرتبہ گزشتہ مالی سال میں منفی رہی۔

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سرمایہ کاروں نے قومی بچت اسکیم (این ایس ایس) سے خالص بنیادوں پر 3 کھرب 17 ارب 20 کروڑ روپے نکال لیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این ایس ایس کے تحت خالص بچت سال 05-2004 کے بعد پہلی مرتبہ گزشتہ مالی سال میں منفی رہی۔

وفاقی حکومت کے زیر انتظام نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز (سی ڈی این ایس) بینکوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عام لوگوں سے حکومتی سیکیورٹیز کی کٹوتی کے حساب سے واپسی کی شرح پر براہ راست رقم ڈپازٹ کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ساڑھے 7 ہزار روپے والے انعامی بونڈز ختم کردیے

اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر 17 سال کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سی ڈی این ایس نے سال 20-2019 میں تقریباً 3 کھرب 71 ارب روپے کی بچت حاصل کی تھی، جو مذکورہ عرصے میں حاصل ہونے والی دوسری سب سے زیادہ سالانہ موبلائزیشن تھی۔

صرف جون کے مہینے میں قومی بچت اسکیم سے نکالی جانے والی رقم ایک کھرب 23 ارب 80 کروڑ روپے کے برابر ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی مہینے میں نکالی گئی رقم کا حجم ساڑھے 4 ارب روپے تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سال 21-2020 میں بڑے پیمانے پر فنڈز کے اخراج کی تین بڑی وجوہات ہیں:

پاک-کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ بینکوں کے مقابلے میں قومی بچت اسکیم میں انسداد منی لانڈرنگ اور صارف کی معلومات کی شرائط بہت کم تھیں۔

مزید پڑھیں:قومی بچت کی اسکیموں کے منافع پر ٹیکس بڑھا کر 15 فیصد کردیا گیا

انہوں نے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر حکومت نے صارف کی معلومات کے سخت قوانین نافذ کیے جس کا فنڈز جمع کرانے پر منفی اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنی رقم کے ذرائع کے بارے میں صاف صاف بتانے سے ہچکچاتے ہیں، جیسا کہ کچھ بینک اکاؤنٹ کھولتے یا بڑی رقم جمع کرتے وقت پوچھتے ہیں، وہ اب اپنی سرمایہ کاری کے لیے قومی بچت اسکیم کو محفوظ آپشن نہیں سمجھتے۔

اس کے علاوہ گزشتہ 2 برسوں میں بھاری مالیت کے غیر رجسٹرڈ پرائز بانڈز کو بند کرنے کے حکومتی فیصلے نے بھی این ایس ایس فنڈز کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

سمیع اللہ طارق کا کہنا تھا کہ لوگ رقم کے لین دین کے لیے پرائز بانڈز کا استعمال کرتے تھے، وہ بیئرر بانڈز تھے یعنی اس بات کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا کہ ان کا مالک کون ہے تاہم اب ایسا نہیں ہے اور بھاری مالیت کے پرائز بانڈز کو رجسٹرڈ کروانا اب لازم ہے۔

حکومت کووڈ 19 ویکسین کی خریداری کیلئے 50 ارب روپے کی منظوری کی منتظر

فلم 'مشن امپوسیبل' کا 7 کووڈ شٹ ڈاؤنز پر انشورنس کمپنی پر مقدمہ

افغانستان پر جارحیت کا ارادہ رکھنے والی طاقتیں شکست سے سبق حاصل کریں، ترجمان طالبان