نقطہ نظر

سہیل خان: بینائی سے محروم کرکٹ ریکارڈز کا انسائیکلوپیڈیا

اگرچہ سہیل کبھی کراچی سے باہر نہیں گئے لیکن ان کا خواب ہے کہ وہ کبھی ’کرکٹ کے گھر‘ یعنی لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کا دورہ کریں۔

یہ فروری 2019ء کی بات ہے جب کراچی کے ساؤتھ اینڈ کلب میں ایک روزمرہ کی پوسٹ میچ پریس کانفرنس ہورہی تھی۔ اس دوران پیچھے بیٹھے میڈیا کے ایک رکن نے نہ صرف غیر ملکی ٹیم کے کپتان اور منیجر سے کچھ سوالات کیے بلکہ کچھ تاریخی حقائق اور اعداد و شمار بھی پیش کیے۔

پیچھے مڑ کر دیکھا تو سیاہ عینک لگائے ایک نوجوان نظر آیا۔ وہ جس یقین اور خود اعتمادی کے ساتھ بات کر رہا تھا اسے دیکھ کر گمان ہوا کہ وہ ویسڈن کرکٹرز الماناک (Wisden Cricketers’ Almanack) کی انسانی صورت ہے۔ حاضرین اس وقت مزید متاثر ہوئے جب انہیں معلوم ہوا کہ کرکٹ کی اس قدر معلومات رکھنے والا یہ نوجوان دراصل نابینا ہے۔

کسی معذوری کے ساتھ جینا بہت مشکل ہوسکتا ہے لیکن کہا جاتا ہے ’جب کوئی مشکل آ پڑے تو پھر کوئی مضبوط آدمی ہی آگے بڑھ سکتا ہے‘۔ اور سہیل خان بھی اپنی زندگی اسی طرح جی رہے ہیں۔

سہیل کی پیدائش 1992ء میں ہوئی اور وہ پیدائشی طور پر نابینا ہیں، تاہم انہوں نے کبھی اس معذوری کو اپنے کام کے آڑے نہیں آنے دیا۔ وہ بہت پُراعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار اور منکسر مزاج بھی ہیں۔

وہ نابینا ہونے کو کوئی رکاوٹ یا خامی نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں، میں پیدائشی طور پر نابینا ہوں لیکن بہت کم عمر میں ہی مجھے احساس ہوگیا تھا کہ میں دوسروں پر منحصر نہیں رہ سکتا۔ سہیل 4 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور اکلوتے بھائی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے کہ خاندان کی مدد بہت اہم ہے اور وہ آپ کے لیے مضبوط دیوار کی مانند ہوتا ہے، لیکن میں اپنی معذوری کو کسی بہانے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرے گھر والوں نے میری بہت مدد کی، ساتھ ہی میرے دوستوں کی طرف سے بھی مجھے بہت مدد ملی۔ گھر والے جہاں بھی جاتے ہیں مجھے ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ میں خود کو اکیلا محسوس نہ کروں۔ وہ اس حوالے سے بھی میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ میں اپنی دلچسپی کا ہر کام کروں‘۔

تو آخر ان کے لیے روزمرہ کی زندگی کیسی ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرے دن کا آغاز مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں ہونے والے اسپورٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے میں نے اپنے اسمارٹ فون میں ایک بولنے والا سافٹ ویئر انسٹال کر رکھا ہے‘۔

سہیل کی زندگی میں تمام کھیلوں میں کے مقابلے میں کرکٹ کو ترجیح حاصل ہے۔ کرکٹ سے ان کا لگاؤ بہت کم عمر میں شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک لمبا سفر تھا۔ میں 4 یا 5 سال کا تھا، جب میں نے پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر کرکٹ کمنٹری سننا شروع کی۔ اس وقت گھر پر انٹرنیٹ دستیاب نہیں تھا اس وجہ سے اگر میں کسی میچ کی کمنٹری نہ سن پاتا تو مجھے اگلے دن کے اخبار کا انتظار کرنا پڑتا۔

’پھر 1999ء میں ریڈیو پاکستان کے ایف ایم 101 نے پروگرام ’اسپورٹس آور‘ شروع کیا۔ مجھے کرکٹ کے اعداد و شمار جیسے سنچری، نصف سنچری اور باؤلنگ کے اعداد و شمار کا مطلب وہاں سے معلوم ہوا۔ جلد ہی میں اس پروگرام میں باقاعدگی سے کال کرنے لگا، ظاہر ہے اس دوران میں اپنی معذوری کا ذکر نہیں کرتا تھا‘۔ وہ دیگر ایف ایمز بھی سنتے تھے جہاں کئی اقسام کے کھیلوں کے پروگرامز نشر ہوتے تھے۔‘

سہیل نے بتایا کہ ’میں اس وقت 7 یا 8 سال کا تھا۔ اس کے بعد تقریباً 10 سال بعد میں نے پروگرامات میں شرکت شروع کردی۔ میں نے اپنے پروگرام بھی شروع کیے لیکن میرے سننے والوں کو میری معذوری کا علم نہیں تھا اور ایک طویل عرصے تک ایسا ہی رہا‘۔

سہیل میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک بار حاصل معلومات کو یاد رکھتے ہیں اور اسے دہرا سکتے ہیں۔ وہ اپنی اسی صلاحیت کی پذیرائی چاہتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے نابینا ہونے کو اپنے چاہنے والوں سے پوشیدہ رکھا۔

سہیل خان ریڈیو کے ذریعے ہی مقبول ہوئے۔ وہ اسپورٹس جرنلسٹس کی ایک تنظیم اسپورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف سندھ (ایس جے اے ایس) کے ممبر بھی بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایس جے اے ایس کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک نابینا شخص کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ اس تنظیم کا حصہ بننے کے بعد میرا تجربہ وسیع ہوا اور جلد ہی لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ میں ایک نابینا شخص ہوں جسے کرکٹ سے دلچسپی ہے اور جو ریڈو شو کی میزبانی بھی کرتا ہے‘۔

سہیل نے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کا پہلا دورہ 2016ء میں قائدِاعظم ٹرافی کے دوران کیا تھا۔ یہ پاکستان میں ہونے والے سب سے اعلیٰ سطح کا ڈومیسٹک کرکٹ ٹورنامنٹ ہے۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ اکتوبر کا مہینہ تھا اور میچ کراچی بلوز اور واپڈا کے درمیان کھیلا جارہا تھا۔ اس کے بعد سے سہیل کراچی کے کئی اسٹیڈیمز میں باقاعدگی سے جانے لگے اور وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے منظور شدہ میڈیا پرسن ہیں۔

سہیل کا ماننا ہے کہ کسی کی بھی زندگی میں دوست بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے دوست شاہزیب بھٹو انہیں اپنے ساتھ باہر لے جاتے ہیں تاکہ وہ خود کو اکیلا محسوس نہ کریں۔ وہ انہیں میچ کے دوران یہ بھی بتاتے رہتے ہیں کہ میدان میں اس وقت کیا ہورہا ہے۔ سہیل کہتے ہیں کہ ’آپ کو زندگی میں اس قسم کے دوست کی ہی ضرورت ہوتی ہے‘۔

اگرچہ وہ کبھی کراچی سے باہر نہیں گئے ہیں لیکن ان کا خواب ہے کہ وہ کبھی ’کرکٹ کے گھر‘ یعنی لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کا دورہ کریں۔

سہیل بتاتے ہیں کہ ’میں بہت سے ملکی اور غیر ملکی کرکٹ اسٹارز سے مل چکا ہوں اور ان سب نے کرکٹ کے حوالے سے میری معلومات اور کرکٹ ریکارڈز اور اعداد و شمار کے حوالے سے میری معلومات کو سراہا ہے‘۔

سہیل کے پاس ان افراد کے لیے ایک مشورہ ہے جو خوش قسمتی سے کسی معذوری کا شکار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنے اردگرد معذور افراد کو دیکھیں تو ان کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں اور اگر انہیں کسی مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کریں، اور ان کے دوست بنیں۔ ’اس کا مطلب ہے کہ دوسرے کی تکلیف کو محسوس کیا جائے۔ یہ صرف کسی ایک شخص کی مدد تک محدود نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہر اس شخص کی مدد کی جائے جسے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی مدد کی ضرورت پڑے۔ حوصلہ افزائی کی طرح ہمدردی اور اخلاص کی بھی بہت اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آج کامیاب ہوں‘۔

ایس جی اے ایس نے حال ہی میں بینائی سے محروم کرکٹ اعداد و شمار کے پہلے ماہر کی پذیرائی کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ یہ پروگرام جامعہ کراچی میں منعقد ہوا تھا جہاں سہیل کو کرکٹ ریکارڈز کے حوالے سے طلبہ کے کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ طلبہ ان کے برجستہ جوابات، یادداشت اور ذہانت سے حیران تھے۔

فروری 2021ء میں پاکستان سپر لیگ کے کراچی لیگ کے دوران پی سی بی نے بھی سہیل کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ’ہمارے ہیروز‘ ایوارڈ سے نوازا تھا۔


یہ مضمون 29 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کی ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

محمد آصف خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔