پاکستان

حکومت صدارتی خطاب کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے میں تذبذب کا شکار

افغانستان میں غیر واضح صورتحال اور ملک کی صحافتی تنظیموں کی جانب سے دھرنے کی کال کی وجہ سے اجلاس بلانے کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت افغانستان میں غیر واضح صورتحال اور ملک کی صحافتی تنظیموں کی جانب سے دھرنے کی کال کی وجہ سے صدارتی خطاب کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کے بارے میں تاحال فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کی جانب سے ملک میں ایک نئی میڈیا ریگولیٹری باڈی قائم کرنے کے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج

حکمران اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے متعدد ارکان اور قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکریٹریٹ کے متعلقہ عہدیداروں کے انٹرویوز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے انہیں ابھی تک آئینی طور پر صدر کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی کسی تاریخ کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے ستمبر کے پہلے ہفتے میں مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب اسے آئندہ ماہ کے دوسرے ہفتے میں کسی وقت بلانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کی صورتحال پر مکمل پارلیمانی بحث کے لیے اپوزیشن کی جانب سے مسلسل مطالبے کے باوجود اجلاس جلدی بلانے سے گریزاں ہے کیونکہ اپوزیشن حکومت سے سیشن جاری رکھنے کے لیے کہہ سکتی ہے۔

آرٹیکل 56 (3) کے مطابق ’قومی اسمبلی کے ہر عام انتخابات کے بعد پہلے سیشن کے آغاز پر اور ہر سال کے پہلے سیشن کے آغاز پر صدر دونوں ایوانوں کو ایک ساتھ جمع کر کے خطاب کریں گے اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو آگاہ کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے حالات پر غور کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، شہباز شریف

گزشتہ برس صدر ڈاکٹر عارف علوی نے 20 اگست کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا لیکن قومی اسمبلی نے رواں سال 12 اگست کو تحریک اظہار تشکر منظور کی، تیسرے پارلیمانی سال کا آخری دن کیونکہ ارکان نے خطاب کو کوئی اہمیت نہیں دی اور تحریک تقریباً ایک سال تک ایجنڈے کا حصہ بنی رہی۔

ایک اور پہلو، جو مشترکہ اجلاس بلانے کی حکومتی کوششوں میں رکاوٹ بنا رہا، اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے جانب سے صحافیوں پر متواتر حملوں، جبری برطرفیوں کے خلاف صدارتی خطاب کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کی کال دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میڈیا اداروں کی جانب سے میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) قائم کرنے کی حکومتی تجویز کے خلاف بھی احتجاج شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے 53 ممبران اسمبلی غیر حاضر رہے'

صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی پی ایم ڈی اے کے قیام کے اقدام کی مخالفت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور اسے میڈیا اور اختلاف رائے کی آواز کو مزید روکنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اسے ’سخت قانون‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مجوزہ قانون سازی کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

آتش گیر غباروں، سرحدی جھڑپوں کے بعد اسرائیل کی غزہ پر بمباری

اسٹیبلشمنٹ کی جتنی مدد موجودہ حکومت کو مل رہی ہے کسی کو نہیں ملی ، شہباز شریف

ماڈل و اداکار عنایت خان نے خاموشی سے شادی کرلی