اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی تحقیق ویکسنیشن کرانے والے یا کووڈ کو شکست دینے والے افراد کے خون کے نمونوں پر کورونا وائرس کی 2 بہت زیادہ متحرک اقسام کی آزمائش کی گئی ہے۔
محققین نے کہا کہ نتائج سے ویکسنیشن کے ساتھ احتیاطی تدابیر یعنی فیس ماسک اور سماجی دوری پر عمل کرنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وائرس مسلسل خود کو بدل رہا ہے تاکہ اپنے پھیلاؤ کو بڑھا سکے۔
تحقیق میں ثابت ہوا کہ کورونا کی قسم ایلفا (جو سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی) اور بیٹا (جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آئی) کے سامنے فائزر کی ویکسین استعمال کرنے یا ماضی میں بیماری سے متاثر ہونے والے 100 کے قریب افراد کے خون کے نمونوں میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح گھٹ گئی۔
تحقیق کے مطابق بیٹا قسم سے اینٹی باڈیز کی سطح میں اوریجنل وائرس کے مقابلے میں 9 گنا کمی آءی۔
محققین نے یہ بھی بتایا کہ ویکسنیشن اور سابقہ بیماری سے کورونا کی ان 2 اقسام کے خلاف کافی حد تک تحفظ جسم کو ملتا ہے۔
تحقیق کے نتائج حالیہ تحقیقی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں۔
تحقیق کے لیے ماہرین نے کورونا کی نئی اقسام کو مریضوں سے حاصل کیا اور اوریجنل وائرس کو تیار کرکے تجربات کیے۔
وائرس کی ہر قسم کے نمونوں کو رضاکاروں کے خون کے نمونوں میں ملا کر اینٹی باڈیز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔
محققین نے دریافت کیا کہ نئی اقسام کے خلاف وائرس سے ملنے والے تحفظ کی شرح میں کمی آتی ہے خاص طور پر 50 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
انہوں نے کہ معمر افراد میں خطرے کا بڑھنا تشویشناک ہے اور ضرورت ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی وائرس سے بچنے کی کوشش کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ نتاج سے عندیہ ملتا ہے کہ فائزر ویکسین سے وائرس کی نئی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ برقرار رہتا ہے چاہے وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کیوں نہ آجائے۔