نقطہ نظر

کہانی: کاغذ کے پھول

'میں اخبار سے گلدستہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی محبوبہ کو پیش کرسکوں۔ مجھے یقین ہے پھر وہ مجھے الگ انسان سمجھے گی۔'

طویل گرم اداسی بھرے دنوں میں اس نوجوان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ شہر میں وبا پھیلنے کے بعد اس کی کمپنی نے جن 18 لوگوں کو نوکری سے نکالا تھا ان میں وہ بھی شامل تھا۔

اس روز جب اس کا باس آن لائن میٹنگ میں برخاست کیے گئے ملازمین کی فہرست پڑھ کر سُنا رہا تھا تو 15ویں نام تک اسے یقین تھا کہ وہ اس فہرست کا حصہ نہیں ہوگا مگر ایسا نہ ہوا اور 16واں نام سن کر اسے کمپیوٹر اسکرین تاریک ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

اب فراغت کے دن تھے اور وہ سارا دن انٹرنیٹ پر نوکریوں کے اشتہارات دیکھتا رہتا۔ ایسے ہی بیٹھے بٹھائے اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ جادو سیکھے جیسا کہ اس نے بچپن میں جادوگروں کو کرتب دکھاتے دیکھ رکھا تھا، وہ تالیوں کی داد کے ساتھ روپے بھی خوب کماتے تھے۔

ایک دفعہ جادوگر نے جب ٹوپی سے کبوتر نکال کر دکھایا تھا تو وہ کئی روز اس کرتب کے سحر میں مبتلا رہا تھا۔ اس نے سب سے پوچھا تھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ آدمی ٹوپی کو سر سے اتارے تو اندر سے کبوتر نکل آئے جب کہ وہ ٹوپی خالی تھی۔ سب کہتے کبوتر ٹوپی میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تو پھر وہ ٹوپی گرتی کیوں نہیں؟ کبوتر اڑتا کیوں نہیں؟

لیکن کوئی بھی اس کے سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہ دیتا۔

بے روزگاری کے طویل دنوں میں اسے خیال آیا کہ اب وہ جادوگر بنے گا۔ وہ کچھ الگ کرکے دکھائے گا۔ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اس نے ایک 'آن لائن میجک اسکول' کا فارم بھر کے بھیج دیا۔ اگلے ہی دن اسے جوابی ای میل موصول ہوئی جس میں اسکول انتظامیہ نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے جادو سیکھنے کی خاطر ان کے ادارے کا انتخاب کیا تھا اور وہ ہرممکن کوشش کریں گے کہ وہ اچھے طریقے سے اسے جادو سکھائیں۔

پڑھیے افسانہ: ذات

ای میل کے آخر میں سوال تھا کہ کیا وہ یہ بتانا پسند کرے گا کہ وہ جادو سیکھنا کیوں چاہتا ہے؟

یہ سوال پڑھ کر وہ کچھ پریشان ہوگیا۔ 'کیا میں انہیں لکھ بھیجوں کہ یہ میری بچپن کی خواہش ہے؟ یا پھر آج کل میں بے روزگار ہوں اور کرنے کو کچھ نہیں تو سوچا جادو ہی سیکھ لوں۔ نہیں نہیں یہ دونوں جواب بہت بچگانہ ہیں‘۔

'میں اخبار سے گلدستہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی محبوبہ کو پیش کرسکوں۔ مجھے یقین ہے پھر وہ مجھے الگ انسان سمجھے گی۔'

اس نے یک سطری جملہ لکھا اور ای میل بھیج دی اور بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ کب اس کا باقاعدہ داخلہ ہوجائے گا۔

ای میل میں اسے جواب ملا۔ 'آپ کا جواب پڑھ کر خوشی ہوئی۔ آپ یقیناً ایک رومان پسند آدمی معلوم ہوتے ہیں اور ایک جادوگر کے لیے یہ ایک اضافی خوبی تصور ہوتی ہے۔ براہِ مہربانی اس جادوئی کرتب کی فیس جلد از جلد ادا کیجیے تاکہ آپ کی باقاعدہ کلاسز شروع کی جاسکیں۔ ہمارے تجربہ کار اساتذہ ہر طالبِ علم کے لیے الگ الگ سیشن رکھتے ہیں تاکہ انہیں ان کی پسند کے جادوئی کرتب سکھا سکیں۔ فیس کی ادائیگی کے فوراً بعد آپ کو کاغذ سے پھول بنانے کا طریقہ سکھا دیا جائے گا۔

چند مشہور جادوئی کرتبوں کی فیس درج ذیل رہی۔

'کاغذ سے پھول بنانے کی فیس 5 ڈالر'

'ٹوپی سے کبوتر نکالنے کی فیس 10 ڈالر'

'منہ سے آگ اور رومال نکالنے کے کرتب کی فیس 20 ڈالر'

جادوئی کرتبوں کی طویل فہرست دیکھ کر وہ اس مخمصے کا شکار ہوگیا کہ آخر کون سا کرتب سیکھے اور کون سا رہنے دے۔ سب سے سستا کرتب کاغذ سے پھول بنانے کا تھا سو اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد آن لائن 5 ڈالر ادا کیے اور الیکٹرانک رسید کی ای میل اسکول انتظامیہ کو بھیج دی۔

پڑھیے افسانہ: یہاں پرندوں کا مرنا حادثہ نہیں

اسے جوابی ای میل میں بتادیا گیا کہ 2 روز بعد شام 7 بجے اس کی کلاس ہوگی جس میں اسے اخبار سے پھول بنانے کا کرتب سکھا دیا جائے گا۔ اس کی بے رنگ اداس زندگی میں نوکریوں کے لیے درخواستیں دینے کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچا تھا اور وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ بالفرض نئی نوکری مل بھی گئی تب بھی وہ اپنی الگ پہچان نہیں بناسکے گا۔ اس کی محبوبہ نے اسے نوکری سے برخاست کردینے کے بعد سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ جب کمپیوٹر اسکرین تاریک ہوگئی تب اس نے اپنی محبوبہ کو فون کیا اور بتایا،

'میں پریشان ہوں، آج مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ وبا اب لوگوں کے روزگار چھیننے لگی ہے۔ ایک ساتھ 18 لوگ نکال دیے ہیں۔'

'تمہارے ساتھ یہی ہونا تھا۔ تم میں کچھ بھی الگ نہیں ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ تم ان 18 میں نہ شامل ہوتے۔ یقیناً تمہاری کارکردگی بہت خراب رہی ہوگی'، محبوبہ نے جواب دیا۔

'نہیں، نہیں میں نے بہت محنت کی تھی۔ دراصل یہ وبا اور میرا باس بھی'، وہ کچھ بتانا چاہتا تھا۔

'بس تم بہانے ہی بناتے رہنا۔ ایوریج لوگوں کا یہی مسئلہ ہے۔ اپنا قصور ماننے کے بجائے سب کچھ دنیا پر ڈال دیتے ہیں،' محبوبہ نے اپنی بات مکمل کی اور کال کاٹ دی۔

مگر اب جادو سیکھنے کے بعد وہ کوئی عام آدمی نہیں رہے گا۔ یہی وجہ تھی کہ 2 روز بعد جب اس کی آن لائن کلاس شروع ہوئی تو وہ نہایت دل جمعی سے کرتب سیکھنے لگا۔ اس کے استاد نے اسے سب سے پہلے ان اہم ہدایات کے بارے میں سمجھایا جنہیں اس نے دورانِ کرتب یاد رکھنا تھا۔ پھر اس سامان کی فہرست جو اس کرتب کے دوران چاہیے تھی۔ اس نے سب کچھ اپنی نوٹ بک میں لکھ لیا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ ان ہدایات کو ذہن نشین کرلے اور کل یہ سارا سامان موجود ہونا چاہیے تاکہ اسے پریکٹیکل بھی سکھا دیا جائے۔ یہ صرف 2 روز کی کلاس تھی۔ چنانچہ اگلے ہی دن وہ بازار جاکر سارا سامان خرید لایا جو بہت معمولی اشیا پر مشتمل تھا۔ چند پرانے اخبار، ٹیپ، قینچی، رنگ برنگے کاغذ اور چھوٹی پتلی پلاسٹک کی سلاخیں وغیرہ وغیرہ۔ اس نے شام تک ساری ہدایات بھی اَزبر کرلی تھیں۔

جب کلاس شروع ہوئی تو اس کا استاد اس کی کارکردگی دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے کہا کہ وہ اس کورس کے علاوہ بھی دوسرے کرتب ضرور سیکھے کیونکہ اس میں ایک اچھا جادوگر بننے کے پوری پوری صلاحیت موجود ہے۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوا تاہم ابھی تو اسے اپنی محبوبہ کے لیے پھول بنانے کا ہنر سیکھنا تھا۔ استاد نے اسے سکھایا کہ کیسے وہ اس اخبار اور رنگ برنگے کاغذوں کو کاٹ کر ایک چھڑی کی صورت بناسکتا ہے اور پھر ایک جنبش سے بٹن دباتے ہی وہ چھڑی کُھل کر ایک گلدستہ بن جاتی ہے۔ اس نے 2 بار یہ کرکے بھی دیکھا۔

'اوہ یہ کتنا آسان ہے۔ جیسے آدمی چھتری کھولتا ہے بالکل ویسے ہی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں اتنی جلدی یہ سب کرنا سیکھ جاؤں گا۔ بہت شکریہ استاد محترم۔ یہ میرا خواب تھا۔ اب میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔'

کلاس ختم ہونے کے بعد اس نے اپنی ای میل چیک کی تو اس کی خوشی میں اضافہ ہوگیا تھا کہ اس کے باس نے اسے ای میل بھیجی تھی کہ کمپنی ان 18 میں سے 2 لوگوں کو واپس ملازمت پر بحال کرنے لگی ہے۔ مبارک باد تم 2 میں شامل ہو۔

'اوہ یہ کس قدر خوشی کی بات ہے، میں جادو سیکھنے کے ساتھ ساتھ نوکری پر بھی بحال ہوگیا ہوں'، وہ یہ سوچ سوچ کر بہت خوش ہوتا جاتا۔

پڑھیے افسانہ: چلتی ٹرین میں رکی ہوئی کہانی

اس رات اس نے اپنی محبوبہ کو واٹس اپ میسج کیا اور کہا، 'کل ہم 'کافی پلانٹ' میں ملتے ہیں۔ مجھے کچھ سرپرائز دینا ہے'۔

جواب میں محبوبہ نے فقط 'K' لکھ کر بھیج دیا۔

'شکریہ'، اس نے جوابی پیغام بھیجا۔ وہ دیکھ اور پڑھ لیا گیا۔

اس نے اسی رات 3 جادو کی چھڑیاں بنا کر رکھ لی تھیں۔

اگلے دن وہ مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ قبل کافی پلانٹ پہنچ چکا تھا۔ وہ بار بار اپنی جادوکی چھڑی کو دیکھتا جو بٹن دباتے ہی گلدستہ بن جائے گی۔ جب اس کی محبوبہ آئی تو نوجوان اپنی خوشی چھپا نہیں پارہا تھا۔

'کیا سرپرائز ہے؟'، لڑکی نے سوال کیا۔

'دراصل میں تمہیں حیران کردینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس کچھ خاص ہے'، یہ کہہ کر اس نے میز کے نیچے پڑی اپنی چھڑی اٹھائی۔

اُسے 2، 3 بار جادوگروں کی طرح ہوا میں لہرایا اور پھر انگوٹھے کی مدد سے خفیہ بٹن دبایا۔ مگر چھڑی سے پھول برآمد نہ ہوئے۔

وہ کچھ پریشان ہوا۔

'یہ کیا ہے؟'، لڑکی نے حیران ہوکر پوچھا۔

'صرف ایک منٹ ٹھہرو۔ میں ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔ تم حیران رہ جاؤ گی۔' اس نے چھڑی کو 3، 4 بار ہلاکر دیکھا۔ استادکی ساری ہدایات کو ذہن میں لایا۔ مگر بٹن کو بار بار دبانے سے وہ ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آگیا اور سارے کاغذ کے پھول ٹوٹ کر میز پر بکھر گئے۔

'اوہ یہ کیا بکواس حرکت کی ہے تم نے۔ اب مجھے کبھی میسج مت بھیجنا۔'

'it is so embarrassing'

لڑکی اپنی کرسی سے اٹھی، پرس اٹھایا اور کافی پلانٹ کے دروازے سے باہر نکل گئی۔ نوجوان ابھی اسے اپنی نوکری سے متعلق بتانا چاہتا تھا۔

وہ بہت پریشان ہوا، ریسٹورینٹ کے ملازمین سے معذرت کی، بل ادا کیا اور اپنے کمرے میں واپس آگیا جہاں کھڑکی کے نیچے باقی کی 2 چھڑیاں اب بھی موجود تھیں۔ اسے یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا۔ اس نے کھڑکی کھولی، دونوں چھڑیوں کو اٹھایا اور باہر پھینکنے کے لیے جیسے ہی ہاتھ ہوا میں لہرائے تو وہ 2 گلدستوں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔