پاکستان

جسٹس فائز عیسیٰ کا نوٹس واپس، ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ

ازخود نوٹس چیف جسٹس کےذریعے ہوتاہے، کوئی بینچ ازخودنوٹس نہیں لے سکتا، پریس ایسوسی ایشن اپنی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھے، فیصلہ
|

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قرار دیا ہے کہ کوئی بینچ خود سے از خود نوٹس نہیں لے سکتا اور یہ اختیار چیف جسٹس کا ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ زیادتی کا لیا گیا نوٹس بھی واپس لے لیا۔

قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ کی جانب سے ازخودنوٹس لینے کے طریقہ کار سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: صحافی ہراسانی کیس: جسٹس عیسیٰ کو لارجر بینچ میں شامل کرنے کی تجویز

قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ از خود نوٹس کا استعمال چیف جسٹس کے ذریعے ہوتا ہے اور کوئی بینچ از خود نوٹس نہیں لے سکتا، یہ اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ کی جانب سے صحافیوں کی جانب سے دی گئی درخواست پر لیا گیا از خود نوٹس کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔

عدالت نے پریس ایسوسی ایشن کی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کا حکم دیا۔

قبل ازیں سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی دو رائے نہیں اور صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اس پر کارروائی بھی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کرنی ہوتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف کچھ ہوا تو سپریم کورٹ دیوار بن کر کھڑی ہوگی، آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسٰی کا صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں لارجر بینچ کی تشکیل پر اعتراض

جسٹس قاضی امین احمد نے کہا کہ صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے۔

اس موقع پر صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ(پاس) کے صدر امجد نذیر بھٹی نے کہا کہ 5 رکنی بینچ نے قانونی سوالات اٹھائے ہیں، قانونی نکتے پر صحافی دلائل کے ذریعے معاونت نہیں کرسکتے۔

اس موقع صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے بینچ پر اعتراض کیا تو جسٹس قاضی امین نے کہا کہ بینچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس پر دلائل دیں۔

جسٹس منیب اختر نے سماعت کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کا دفتر کھلا تھا دراخوست وہاں کیوں نہیں دی، جس پر جہانگیر جدون نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں صحافیوں نے درخواست رولز کے مطابق دائر نہیں کی۔

وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ جن اداروں کو نوٹس ہوا تھا، وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے، جس پر قائم مقام چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ از خود نوٹس کے کیسز میں سرکاری ادارے درخواستوں پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں، ایک صحافی نے دستخط 14 دوسرے نے 20 کو کیے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں ’عدالتی حکم‘ معطل کردیا

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ از خود نوٹس اختیار کے استعمال کا طریقہ کیا ہوگا، جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ہر بینچ از خود نوٹس لے سکتا ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ از خود نوٹس پر بینچ بنانا اور تاریخ مقرر کرنا چیف جسٹس کا کام ہے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار خوشدل خان نے کہا کہ کسی سائل کو مرضی کے بینچ میں مقدمہ لگانے کی اجازت نہیں، عوام کو عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ تیکنیکی نکات کی وجہ سے انصاف میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، 9 رکنی بینچ قرار دے چکا ہے عدالت طریقہ کار کی پابند نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز آئین کے تحت بنے ہوئے ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کہا کہ فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور آج ہی کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔

بعد ازاں 5 رکنی بینچ کے سربراہ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دو صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

بھارت کو بہت جلد ہماری حکومت چلانے کی قابلیت پتا چل جائے گی، طالبان رہنما

فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر دوبارہ مظاہرے شروع کردیے

1500 امریکی اب بھی فضائی سفر کے منتظر ہیں، امریکا