ہمارے مسیحاؤں کی داد رسی کون کرے گا؟
ملک میں کورونا وائرس سے جنگ جاری ہے اور ینگ ڈاکٹر جنگ کے صفِ اول دستے کا حصہ ہیں جو بنیادی تحفظ اور تاخیر سے ملنے والی تنخواہوں کے باوجود یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ مایوسی کی وجہ سے ان میں سے اکثر ملک چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ پاکستانی ڈاکٹروں کو درپیش متعدد مشکلات کا صرف ایک پہلو ہے۔
14 اپریل 2021ء کو دیگر مسلمانوں کی طرح 26 سالہ ڈاکٹر قادر نواز جکھرانی صبح صادق سے ایک گھنٹہ قبل بیدار ہوئے۔ انہوں نے سحری کی اور قرآن کی تلاوت کے بعد نمازِ فجر ادا کی۔
نماز ادا کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں گئے اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ کسی اور کمرے میں چلی جائیں کیونکہ وہ اکیلے آرام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’آج پہلا روزہ ہے، میں آج ڈیوٹی پر ہسپتال نہیں جاؤں گا‘۔ کچھ گھنٹوں بعد بھی جب قادر کمرے سے باہر نہیں آئے تو گھر والوں کو کچھ تشویش ہوئی اور انہوں نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ مقفل تھا اور انہیں اندر سے کوئی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ ان کے گھر والوں کو مجبوراً دروازہ توڑنا پڑا، انہیں کمرے کے اندر جو منظر نظر آیا وہ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ قادر نے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔
کشمور کے تعلقہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کام کرنے والے قادر کے ساتھی صبح 9 بجے کے قریب ان کے گھر پہنچے۔ انہوں نے قادر کی اہلیہ، 3 بچوں، والد اور بھائی کو شدید صدمے کی حالت میں پایا۔
خودکشی سے 2 دن قبل ہی جب قادر ہسپتال سے گھر جانے کے لیے نکل رہے تھے تو وہ یہ گیت گنگنا کر اپنے ایک ساتھی سے گلے ملے کہ ’لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو‘۔ اگلے روز ان کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ وہ فون استعمال کرنے میں کافی وقت صَرف کر رہے تھے، وہ قرآنی آیات کی تلاوت اور انہیں فیس بک پر شیئر بھی کر رہے تھے۔
ان کے ایک ساتھی نے جائے ملازمت پر اپنے خلاف کسی کارروائی کے ڈر سے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ، ’خدا جانے ان کے ذہن میں کیا چل رہا تھا، کبھی کبھی مجھے اس بات پر بہت غصہ آتا ہے کہ میں ان اشاروں کا مطلب کیوں سمجھ نہ سکا‘۔
لیکن ایسے حالات کا سامنا ملک بھر کے ینگ ڈاکٹروں کو ہے۔ قادر نواز جکھرانی کی موت کے بعد ان کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ میں تھے۔ یہ ایک ایسی مشکل ہے جس سے ینگ ڈاکٹر اور خاص طور پر سرکاری نوکری کرنے والے ینگ ڈاکٹر پریشان رہتے ہیں۔
قادر کا شمار ان ایک ہزار 100 ڈاکٹروں اور ایک ہزار 350 نرسوں میں ہوتا ہے جنہیں حکومتِ سندھ نے کورونا وائرس ایمرجنسی کے دوران 89 روز کے معاہدے پر بھرتی کیا تھا (شروع میں 2 ہزار 300 نرسوں کو بھرتی کیا گیا تھا لیکن بعدازاں ان میں سے 950 کو مستقل کیا گیا)۔
قادر نواز جس ہسپتال میں نوکری کرتے تھے وہاں کُل 9 میڈیکل افسران کا تقرر ہوا تھا لیکن ان میں سے صرف 4 ہی ڈیوٹی پر آتے تھے۔ دیگر 5 ڈاکٹر نے ضلعی صحت افسر کو بھاری خرچیاں (رشوت) دے کر اپنی جان چھڑا لی تھی۔ قادر نواز جکھرانی کے ساتھیوں اور قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ سرکاری دفاتر میں تو خرچی اب معمول بن گئی ہے۔ ضلعی صحت افسر ان کی تنخواہیں جاری کرنے کے لیے تنخواہ کا 5 سے 10 فیصد حصہ طلب کیا کرتا۔ جو لوگ نوکری پر نہیں آتے انہیں تنخواہوں کا 40 فیصد تک بھی رشوت کی صورت میں دینا پڑتا۔
لیکن جو ڈاکٹر اس وبا کے دوران اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ان کے سامنے رشوت کی ادائیگی سے بھی زیادہ بڑے مسئلے موجود ہیں۔
قادر نواز جکھرانی کی موت سے پہلے کے عرصے میں اسٹاف کو دسمبر 2020ء کے بعد سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ قادر اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ ان کے بڑے بھائی لمفوما کا شکار ہیں اور ویل چیئر پر رہتے ہیں۔ قادر کے پاس اپنی تنخواہ کے حصول کے لیے 500 روپے بھی نہیں تھے۔ مجبوراً انہوں نے اپنے دوستوں سے مدد لی۔
وہ روز اپنے ساتھیوں سے تنخواہ کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔ صوتی پیغامات میں وہ اپنے مہربان لیکن مایوس لہجے میں اپنے ساتھیوں کو وبا کے دوران اپنی حفاظت کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے۔
کچھ ہفتوں بعد ایک دوست نے انہیں 6 ہزار روپے دیے، ساتھ ہی ان کے والد نے بھی ایک مقامی دکاندار سے یہ کہہ کر 15 ہزار روپے ادھار لیے کہ قادر کی تنخواہ اسی ہفتے مل جائے گی اور وہ یہ ادھار جلد ہی لوٹا دیں گے۔ تاہم کچھ ہفتوں بعد تنخواہوں کے چیک تو جاری ہوئے لیکن انہیں وصول کرنے کے لیے قادر موجود نہیں تھے۔
زندگیاں بچانے کی ذاتی قیمت
قادر نواز کی خودکشی پر تعلقہ ہیڈکواٹر ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کام کا بائیکاٹ کیا اور یہ احتجاج صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بنی جس نے پریزائڈنگ اسسٹنٹ ضلعی صحت افسر کشمور احسان احمد دھانی کو معطل کردیا۔ اس واقعے کے بعد کچھ ماہ تک تو تنخواہوں کی ادائیگی درست انداز میں ہوتی رہی لیکن دیہی سندھ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں مئی سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
رابیل ابڑو لاڑکانہ میں مقیم ایک نرس ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’جب 89 دن مکمل ہوجاتے ہیں تو تنخواہ تیسرے یا چوتھے مہینے میں ملتی ہے۔ یہ نہ ہی ہمیں مستقل کرتے ہیں اور نہ ہی وقت پر تنخواہ دیتے ہیں۔ کرائے اور کھانے کے لیے دوستوں اور رشتہ داروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں بہت شرم آتی ہے‘۔
اس وقت رابیل اور دیگر نرس ضلعی صحت دفتر میں ویکسینیشن کے لیے بڑی تعداد میں آنے والے افراد کو دیکھ رہے ہیں۔ روزانہ یہاں تقریباً 500 افراد ویکسین لگوانے آتے ہیں، جس کی وجہ سے رابیل اور ان کی ٹیم کو کچھ دیر وقفہ لینے اور پانی پینے تک کی فرصت نہیں ملتی۔
رابیل ابڑو صبح کے وقت 'پوسٹ رجسٹرڈ نرس بیچلر آف سائنس اِن نرسنگ' کی آن لائن ٹریننگ کلاسیں لیتے ہیں، اور شام سے رات تک وہ کووڈ رسپانڈر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
رابیل کے لیے ابتدائی 6 ماہ بہت کٹھن تھے۔ وہ بغیر کسی چھٹی کے کام کر رہے تھے اور اس دوران انہیں تنخواہ بھی نہیں مل رہی تھی۔ 2020ء میں مئی سے جون تک جب ملک کے اندر کورونا کی پہلی شدید لہر اٹھی تھی تو لوگ وائرس کے ڈر سے اپنے پیاروں کے قریب جانے سے بھی انکار کردیا تھا۔ تاہم رابیل جیسے میڈیکل ورکرز کے پاس سماجی فاصلے کا آپشن ہی نہیں ہوتا۔
رابیل کا کہنا ہے کہ ’میں ہر جگہ گیا۔ میں آئیسولیشن روم میں مریضوں کو دیکھتا، کبھی انتہائی نگہداشت اور انتہائی انحصاری یونٹ (high dependency unit) کے درمیان دوڑیں لگا رہا ہوتا اور میتوں کو تدفین کے لیے قبرستان لے کر جاتا‘۔
رابیل یہ سارے کام بھی کرتے اور وفات پاجانے والے مریضوں کے اہل خانہ کے الزامات بھی برداشت کرتے جو کہ کورونا کے حوالے سے مشکوک تھے اور واٹس ایپ کے ذریعے پھیلنے والے سازشی نظریات سے متاثر تھے۔ اس کے باوجود بھی جب آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے مقامی عالم دین کو بُلایا جاتا تو رابیل جیسے ہیلتھ ورکر ہی ذاتی تحفظ کے آلات (پی پی ایز) پہننے میں ان کی مدد کرتے۔ اس کے بعد ایدھی کے رضاکاروں کی مدد سے رابیل اور ان کے ساتھی ہی میت کو قبر میں اُتارتے اور اس پر مٹی ڈالتے۔
پاکستان میں ینگ ڈاکٹروں اور ہیلتھ کیئر ورکرز کا کام کبھی بھی آسان نہیں رہا لیکن اس وبا نے ان کے کام کو مزید مشکل بنادیا۔ رابیل کا کہنا ہے کہ ’کبھی کبھی تو مجھے یہ خیال بھی آیا کہ جو کچھ ہورہا ہے، کاش وہ سب ایک بٹن دباتے ہی بند کیا جاسکتا‘۔
رسک الاؤنس
رابیل کا کہنا ہے کہ متاثرہ مریضوں کے اتنے نزدیک کام کرنے کے باوجود انہیں وہ رکس الاؤنس کبھی نہیں ملا جس کا تمام صوبائی حکومتوں نے ہیلتھ ورکرز سے وعدہ کیا تھا۔
گزشتہ 16 ماہ میں، جب سے کورونا وائرس نے پاکستان کو اپنا شکار بنایا ہے، ملک بھر کے ڈاکٹروں نے حکومتی وعدوں کے مطابق تنخواہیں اور رسک الاؤنس کے حصول کے لیے کئی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
گزشتہ سال کی گرمیوں میں حکومتِ سندھ نے اعلان کیا تھا کہ صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں اور صحت مراکز میں کام کرنے والے ہاؤس جاب افسر، پوسٹ گریجوئیٹ پروفیشنل، نرسنگ کے طلبہ اور اسٹاف کو یہ الاؤنس دیا جائے گا۔ کچھ ماہ بعد محکمہ صحت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کہ مطابق صوبے میں کورونا کے کیس کم ہونے کے سبب ہیلتھ رسک الاؤنس ختم کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے نے جواباً صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز کو معطل کردیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ اگلے دن ہی واپس لے لیا گیا تھا تاہم زمینی حقائق میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ڈاکٹر آصف عباسی شہداد کوٹ میں ایک دیہی مرکز صحت میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’ہم ایسے مستقل ملازمین کو جانتے ہیں جو کہ کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر کام نہیں کرتے لیکن پھر بھی انہیں یہ الاؤنس دیا جارہا ہے، دوسری طرف ہم جو کہ روز ہی اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں، اس الاؤنس سے محروم ہیں‘۔
ڈاکٹر ملک عادل پشاور کے انسٹیٹوٹ آف کڈنی ڈیزیز (آئی کے ڈی) میں کیجوئلٹی میڈیکل افسر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ، ’اس وقت تمام ڈاکٹر، نیم طبی عملہ اور تمام ذیلی عملہ کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر ہے اور یہ سب ہیلتھ رسک الاؤنس کے حقدار ہیں۔ ڈاکٹروں کا حوصلہ اس حد تک پست ہوچکا ہے کہ میرے کئی ساتھی کورونا کی یکے بعد دیگر آنے والی لہروں سے نمٹنے اور کام جاری رکھنے کے لیے اینٹی ڈپریسنیٹ کا استعمال کررہے ہیں‘۔
رواں سال جون میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اسمبلی سیشن میں اس مسئلے کو اٹھایا اور وزارتِ قومی صحت خدمات کو ایک دن میں یہ مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔ تاہم کسی بھی صوبے میں اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ جب حکومت نے الاؤنس کے حوالے سے سمری کو مسترد کیا تو وفاقی دارالحکومت میں بھی ہیلتھ ورکرز نے ہسپتالوں کا بائیکاٹ کیا اور سڑکوں پر احتجاج کیا۔
ایک حالیہ اخباری مضمون کے مطابق ملک کے نامور آڈیٹرز نے خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کے لیے مختص فنڈز میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں، غیر ضروری اخراجات، فنڈز کے غلط استعمال اور جعلی خریداریوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہاں کے صوبائی وزیر برائے صحت و خزانہ تیمور جھگڑا نے اپنی ٹوئٹس کے ذریعے لیک ہونے والی معلومات کو مسترد کرتے ہوئے ’صوبے میں جاری آڈٹ کے عمل کی بنیاد پر اسے مبہم، گمراہ کن اور غیر ذمہ دارانہ‘ معلومات قرار دیا۔
بڑے شہروں میں خطرہ بھی زیادہ ہے
ایک طرف جہاں رابیل جیسے ہیلتھ کیئر ورکرز کو چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے، وہیں دوسری طرف بڑے شہروں میں وبا کے پھیلاؤ کی شرح زیادہ اور مورال پست ہونے کی وجہ سے حالات بدتر ہیں۔
گزشتہ سال ڈاکٹر کاشف جکھرانی کورونا وبا کے بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی خدمات کی انجام دہی کے لیے کراچی منتقل ہوئے تھے۔ اگرچہ کاشف کے تعلیمی نتائج بہت اچھے تھے لیکن پھر بھی انہیں ان کے آبائی علاقے کشمور میں مقرر نہیں کیا گیا۔ سندھ سیکریٹیریٹ میں ایک انٹرویو کے بعد انہیں کراچی میں نوکری کی پیشکش کی گئی کیونکہ شہر میں کورونا کے کیسوں میں اضافہ ہورہا تھا اور یہاں طبی عملے کی ضروت تھی۔ کاشف نے کہا کہ، ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ کراچی میں کیسز کی شرح بڑھ رہی ہے اس وجہ سے دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے ہم میں سے کئی لوگوں کو یہاں مقرر کردیا گیا‘۔
ابتدا میں تو کاشف کی ڈیوٹی آرٹس کونسل میں قائم ویکسینیشن سینٹر میں لگی اور اب وہ ایکسپو سینٹر میں قائم انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں تعینات ہیں۔
دیہی سندھ سے کراچی آنا کاشف کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا۔ وہ یہاں مکان کے زائد کرایوں، غیر معیاری ٹرانسپورٹ (خاص طور پر لاک ڈاؤن کے دوران) اور شہری زندگی کی تیزی کے لیے تیار نہیں تھے۔ تنخواہوں کے وقت پر نہ ملنے سے ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔
کاشف کو ہر دوسرے مہینے تنخواہ ملتی تھی، وہ کہتے ہیں کہ یہاں سے بہتر گزارا تو اپنے آبائی علاقے کے نجی ادارے میں دہاڑی پر کام کرکے ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’کم از کم میں گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا تو بندوبست کرپاتا۔ اس وقت تو ہمیں یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ کورونا ختم ہوتے ہی ہمیں نوکری سے بھی برخاست کردیا جائے گا۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ کسی طرح اپنے آبائی علاقے میں ہی پوسٹنگ کروالوں لیکن مجھے عنقریب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا‘۔
کاشف جیسے ڈاکٹر جس قسم کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ان کا سامنا ملک بھر کے ڈاکٹروں کو بھی ہے۔ ملک بھر کے ڈاکٹر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں لیکن ان کی حفاظت کا مناسب انتظام موجود ہی نہیں ہے۔
پشاور میں مقیم ڈاکٹر رومانہ وزیر پوسٹ گریجویٹ کی طالبہ ہیں جو اوبسٹیٹرکس اور گائناکولوجی کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ عام دنوں میں بھی ان کے کام کا دورانیہ اکثر 48 گھنٹوں تک کھنچ جاتا ہے، اس دوران وہ لیبر روم، آپریشن تھیٹر، وارڈ، ایمرجنسی روم اور آؤٹ پیشنٹ سروسز کے درمیان دوڑتی نظر آتی ہیں جبکہ وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہر وقت رہتا ہے۔
اگست 2020ء میں ڈاکٹر رومانہ پہلی مرتبہ کورونا کا شکار ہوئیں۔ ایک 28 سالہ حاملہ خاتون ہسپتال سے گھر گئیں جن کا کورونا کا ٹیسٹ نہیں ہوسکا تھا۔ اگلے دن ان خاتون کو دوبارہ ہسپتال لایا گیا، اس وقت انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ انہیں فوراً ہی آئی سی یو میں منتقل کیا گیا اور وینٹیلیٹر پر رکھ دیا گیا۔ بالآخر ڈاکٹروں کو سی سیکشن کرنا پڑا۔ اگرچہ بچے کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تاہم وہ بچ گیا لیکن اس کی ماں بچے کی پیدائش کے 3 روز بعد ہی انتقال کرگئیں۔
اس کے کچھ ہی دن بعد رومانہ بھی کورونا کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے خود کو گھر میں 20 دن کے لیے آئیسولیشن میں رکھا۔ اس دوران ان کی بہن بھی وائرس سے متاثر ہوگئیں۔ اس کے بعد رواں سال جولائی میں وہ خود اور ان کے وارڈ کی نرس سمیت مزید 6 پوسٹ گریجویٹ ٹرینیز وائرس سے متاثر ہوئے۔ ان سب کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ انہیں وائرس کہاں سے لگا۔
اسی طرح کچھ انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز کے ڈاکٹر عادل کے ساتھ بھی ہوا وہ وائرس کا شکار ہوئے اور ان کے ساتھ ہی وائرس ان کے گھر پہنچ گیا۔ ان کی اہلیہ جو خود بھی ڈاکٹر ہیں اس سے متاثر ہوئیں۔ وہ دونوں آئیسولیشن میں رہے اور خود اپنا علاج کرتے رہے۔ 6 ماہ بعد ان کی اہلیہ اور ڈاکٹر عادل دوبارہ کورونا سے متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر عادل کا کہنا تھا کہ ’میرے اور میرے گھر والوں پر جو کچھ بیتی اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملا‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو ان کی ضروریات سمجھنے کے لیے ان سے بات کرنی ہوگی۔
ڈاکٹروں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے
ملک میں کورونا کو ایک سال ہوگیا ہے لیکن ابھی بھی پی پی ایز کی مناسب دستیابی کو یقینی نہیں بنایا جاسکا ہے۔ ڈاکٹر عادل نے بتایا کہ، ’میں نے جو ماسک لگایا ہوا ہے وہ میں نے خود خریدا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران جب پی پی ایز (جس میں صرف گاؤن اور ماسک ہی شامل ہوتے) کی فراہمی شروع ہوئی تو ہمیں کہا گیا کہ ہم انہیں استعمال کے بعد دھوئیں کیونکہ یہ مناسب تعداد میں موجود نہیں ہیں‘۔
یہ قلت بڑھتے بڑھتے کوئٹہ اور پنجگور کے صحت مراکز تک بھی پہنچ گئی۔ آؤٹ پیشنٹ سروس ایریا میں مریض کھانس رہے ہوتے تھے اور ڈاکٹر نامناسب حفاظتی انتظامات کے ساتھ صرف گاؤن اور ماسک ہی پہنے اپنا کام انجام دے رہے ہوتے۔
ڈاکٹر حنیف لونی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) بلوچستان کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ طبی عملہ ’حفاظتی کٹ کو اس وقت تک استعمال کیا جاتا جب تک اس کی حالت پھینکنے لائق نہ ہوجاتی۔ جن لوگوں کو ان کی ماہانہ تنخواہیں ہی وقت پر نہیں ملتیں ان سے آپ یہ امید کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر کوئی چیز خرید سکتے ہیں؟ ہم کاروباری افراد اور فلاحی اداروں سے ملنے والے عطیات کے سہارے اپنا کام انجام دے رہے ہیں‘۔
گزشتہ سال اپریل میں جب کورونا کے شدید وار کو ایک ماہ ہوچکا تھا اس وقت کوئٹہ میں 150 احتجاجی ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ ڈاکٹر صوبے بھر میں پی پی ایز اور دیگر حفاظتی سامان کی عدم دستیابی پر احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بلوچستان ملک میں کورونا سے سب سے متاثرہ صوبہ تھا کیونکہ ایران سے آنے والے زائرین پاکستان میں وائرس کے کمیونٹی پھیلاؤ کا سبب بن رہے تھے۔
پنجاب میں بھی طبی عملے نے خدمات کا بائیکاٹ کیا اور احتجاج کا دائرہ دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا۔
کچھ دنوں بعد صدر مملکت عارف علوی کو پنجاب حکومت کی جانب سے کورونا کے حوالے سے دی جانے والی بریفنگ میں این 95 ماسک لگائے دیکھا گیا جس نے طبی عملے کو مزید مشتعل کردیا۔ بلوچستان حکومت نے کہا کہ وہ طبی عملے کے مطالبات سے متفق ہیں اور وہ تقریباً 500 ڈاکٹروں کے ایڈہاک کانٹریکٹ میں بھی توسیع دے رہے ہیں۔
نوکری کی ضمانت بھی نہیں
ردعمل میں اٹھائے جانے ولے یہ اقدامات عموماً عارضی ہوتے ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیے جاتے ہیں، اور اس عدم منصوبہ بندی کا خمیازہ بھی ڈاکٹروں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
جن ڈاکٹروں کو کورونا کے باعث ایڈہاک بنیاد پر بھرتی کیا گیا تھا انہیں بھی مستقل بنیاد پر تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ ان میں 250 ایسے ڈاکٹر اور نرسیں بھی شامل ہیں جن کا اعلان بلوچستان کے محکمہ صحت نے کیا تھا۔
ڈاکٹر حنیف نے دعویٰ کیا کہ، ’میرے مطابق صرف 15 سے 20 فیصد عملے کو وقتاً فوقتاً تنخواہیں ادا کی جاچکی ہیں۔ جب وبا میں کمی آتی تو اس طبی عملے کو فارغ کردیا جاتا اور وبا میں دوبارہ شدت آتے ہی انہیں بھی دوبارہ بھرتی کرلیا جاتا مگر ان کی پچھلی تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں‘۔
بھرتی کیے گئے مرد و خواتین میڈیکل افسر ان سیکڑوں پوسٹ گریجویٹ ٹرینیز میں شامل ہیں جنہیں گزشتہ 10 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ طبی عملے کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں پروفیشنل، میڈیکل سہولیات اور ادویات کی قلت کے باعث مریض ہنگامہ آرائی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید ٹریننگ کے لیے بھی کم ہی مواقع موجود ہیں۔ (بلوچستان میں صرف 2 ایسے ٹرشری کیئر مراکز ہیں کہ جو تربیتی مراکز بھی ہیں)۔
ان حالات میں ڈاکٹروں کا مایوس ہونا بنتا بھی ہے۔ طالبات کی اکثریت گھرداری کو ترجیح دیتی ہے جبکہ مرد پرائیویٹ نوکری تلاش کرتے ہیں۔ بلوچستان میں آرتھوپیڈک سرجری، اینڈوکرینولوجی اور جنرل پیشنٹ سرجری میں مہارت حاصل کرنے کے خواہش مند ٹرینیز دیگر صوبوں اور شہروں میں مواقع تلاش کرتے ہیں اور جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
2020ء سے 2021ء کے درمیان پنجاب میں بھی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے مواقع دو تہائی تک محدود ہوگئے ہیں۔ صوبے میں 10 ہزار سے زیادہ ڈاکٹر بے روزگار ہیں جو اپنی ایک سالہ انٹرن شپ سے آگے ہی نہ بڑھ سکے۔
گجرانوالہ کی رہائشی ڈاکٹر سعدیہ نے بھی 2 جگہ ایڈہاک میڈیکل افیسر کی آسامی کے لیے درخواست دی ہوئی ہے اور گزشتہ 8 ماہ سے وہ نتائج کی منتظر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’درخواست دینے والوں میں سے ہر سال 10 فیصد سے بھی کم افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، ہم سنتے رہتے ہیں کہ کس طرح لوگ اس نوکری کے حصول کے لیے لاکھوں روپے دیتے ہیں‘۔
جو چند لوگ نوکری کے حصول میں کامیاب بھی ہوتے ہیں انہیں بھی سال بھر نوکری کی ضمانت نہیں دی جاتی کیونکہ اگر کوئی پبلک سروس کمیشن پاس کیا ہوا ڈاکٹر ان کی آسامی کے لیے مستقل طور پر دستیاب ہوجائے تو انہیں وہ نوکری چھوڑنی پڑتی ہے۔
ذیشان نور وائے ڈی اے پنجاب کے رُکن ہیں اور خود بھی شعبہ امراضِ جلد میں پوسٹ گریجویٹ تربیت میں داخلے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہر روز انہیں میڈیکل گریجویٹس کی فون کالز آتی ہیں جو نوکری کے متلاشی ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ دن قبل مجھ سے ایک مایوس میڈیکل گریجویٹ نے رابطہ کیا، وہ مجھ س جلد از جلد ملنا چاہتی تھیں، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کی والدہ وفات پاچکی ہیں، ان کے والد کورونا سے متاثر ہیں اور انہیں نوکری کی ضرورت ہے، وہ کوئی بھی سرکاری یا نجی نوکری کرنے کے لیے تیار تھیں‘۔
پاکستان کو خیرباد کہنا
ڈاکٹروں کو اکثر ایسے کرشماتی افراد کے طور پر پیش یا جاتا ہے جو لوگوں کو زندگی کا ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں مگر پاکستانی ڈاکٹر خود کسی کرشمے کے منتظر ہیں اور ان میں سے کچھ اب مزید انتظار نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر روہت کیسوانی نے 2 سال قبل چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی تھی، انہوں نے سرجری میں اپنی ایک سال کی ہاؤس جاب مکمل کی اور پھر گزشتہ سال کورونا کے خلاف محاذ سنبھال لیا۔ وہ روزانہ کورونا کے نمونے لیتے ہیں اور ایک صحت مرکز میں مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ کئی چھٹیاں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں لیکن روہت کے گھر والوں کی طرح دیگر گھرانے بھی تنخواہ کے ملنے اور ساتھ وقت گزارنے کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستقل نوکری کے حصول کی روہت کی امیدیں ماند پڑتی گئیں اور انہیں احساس ہوا کہ دیگر مواقع کے حصول کی بھی کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس وقت وہ آکوپیشنل انگلش ٹیسٹ (او ای ٹی) کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ ٹیسٹ طبی عملے کے لیے برطانیہ اور امریکا میں ریزیڈنسی پروگرام کا حصہ بننے اور بالآخر لائسنس کے حصول کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ روہت کا کہنا ہے کہ، ’میں کوشش کر رہا ہوں کہ کراچی میں اس ٹیسٹ کے لیے کوئی سیٹ مل جائے۔ اس وقت تو کم از کم 3 ماہ کے لیے کوئی سیٹ خالی نہیں ہے‘۔
پاکستان سالانہ تقریباً 14 ہزار ڈاکٹر تیار کرتا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے مطابق ان میں سے 60 فیصد طلبہ جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہوتی ہے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ یا کسی سروس کا انتخاب نہیں کرتے۔ پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ’باقی رہ جانے والوں میں سے بھی 15 فیصد ہی دلچسپی کے ساتھ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے مواقع کو تلاش کرتے ہیں‘۔
سرکاری سطح پر ٹریننگ پوزیشن کی قلت کے باعث کچھ لوگ نجی شعبے کا رخ کرتے ہیں تو زیادہ وسائل رکھنے والے اور زیادہ پر عزم افراد بیرون ملک ٹریننگ اور لائسنس کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکا اور برطانیہ میں تقریباً 30 ہزار پاکستانی ڈاکٹر موجود ہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کچھ ہزار ڈاکٹر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی موجود ہیں۔
اس وقت ملک میں تقریباً 2 لاکھ ڈاکٹر اور ایک لاکھ 16 ہزار 659 نرسیں موجود ہیں۔ صرف گزشتہ 2 سالوں میں ہی ڈاکٹروں، نرسوں اور فارماسسٹ سمیت طبی شعبے کے 2 ہزار سے زائد افراد نے خود کو حکومت کے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائیمنٹ میں رجسٹر کروایا ہے تاکہ انہیں بیرونِ ملک نوکری مل سکے۔
بریگزٹ کے بعد اور کورونا کو عالمی وبا قرار دیے جانے سے کچھ دن قبل پاکستان کے ایمپلائیمنٹ بیورو، ایفکو پرائیویٹ لیمیٹڈ (بھرتیاں کرنے والی ایک نجی پاکستانی ایجنسی) اور برطانیہ کے ایم ایم سی ریکروٹنگ گروپ کے درمیان ایک یادداشت پر دستخط ہوئے تھے جس میں طے پایا گیا تھا کہ پاکستان برطانیہ کو طبی عملے کے ڈیڑھ لاکھ افراد فراہم کرے گا۔
اسی سال کویت اور پاکستان میں یہ معاہدہ طے پایا کہ پاکستان کورونا سے نمٹنے کے لیے طبی عملے کے 600 افراد کو مختلف گروپوں میں کویت بھیجے گا۔ وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور افرادی قوت کی ٹوئٹ کے مطابق جون 2021ء تک ڈاکٹروں، نرسون اور ٹیکنیشنز پر مشتمل طبی عملے کے ایک ہزار 134 افراد کویت پہنچے۔
اس سال پاکستان آنے والے ترسیلاتِ زر میں 17 فیصد اضافہ ہوا جو کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے لیے ایک سنگ میل ہے، پی ٹی آئی کے منشور میں بھی معیشت میں سمندر پار پاکستانیوں کی شراکت کو آسان بنانا شامل تھا۔ تاہم نوجوان پروفیشنلز کے ملک سے باہر جانے سے ملک میں قابل افراد کی کمی پیدا ہورہی ہے۔
ڈاکٹروں کا پاکستان چھوڑ کر جانا کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم اس وبا نے ینگ ڈاکٹروں کو دیگر مواقع کی تلاش پر مجبور کیا ہے۔ اس بارے میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ ینگ ڈاکٹر اچھے مواقع کی تلاش میں ملک سے باہر جارہے ہیں۔
کڑا وقت
ایک طرف جہاں ینگ ڈاکٹر غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں وہیں دوسری طرف موجودہ میڈیکل گریجویٹس ایک اور مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔
ماہم عروج پشاور میں رہتی ہیں اور ان کی میڈیکل کی تعلیم حال ہی میں مکمل ہوئی ہے، انہوں نے میڈیسن اور سرجری میں اپنی انٹرن شپ بھی اسی سال مکمل کی ہے۔ اگر ان کی گریجویشن کے سال سب کچھ پہلے جیسا ہی رہتا تو ایک سال کی ٹریننگ کے بعد وہ پاکستان میں ایک تصدیق شدہ ڈاکٹر بن جاتیں اور کوئی نوکری یا پوسٹ گریجویٹ کرنے کے لیے آزاد ہوتیں تاہم اب لائسنس کا حصول اتنا آسان نہیں رہا۔
2019ء میں ملک میں میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کی باڈی 9 اراکین پر مشتمل تھی جس کی سربراہی صدر کے پاس تھی۔ اس کا قیام اس وعدے کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ یہ کمیشن طبی عملے کی تعلیم کے حوالے سے جامع اصلاحات لائے گا۔
تاہم اس باڈی کی تشکیل پر سخت تنقید کی گئی اور اسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ وائے ڈی اے نے اسے مسترد کیا کیونکہ اس کے اراکین کے انتخاب کے لیے کوئی انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ تاہم کچھ ماہ بعد پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020ء متعارف کروایا گیا جس سے طلبہ، ٹرینیز اور تعلیمی اداروں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔
اس نئے قانون کے تحت نیشنل لائسنسنگ اگزام (این ایل ای) متعارف کروایا گیا اور ستمبر 2020ء کے بعد کے میڈیکل گریجویٹس کو پابند کیا گیا کہ وہ لائنسنس کے حصول کے لیے اس امتحان میں کامیاب ہوں۔ ماضی میں لائسنس کے حصول کی یہ شرط صرف غیرملکیوں کے لیے ہوتی تھی۔ گزشتہ کچھ ماہ میں ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد اور پشاور تک ڈاکٹروں نے اس حکم کے خلاف مظاہرے کیے جو ان امیدواروں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو پی ایم ڈی سی کے ساتھ رجسٹرڈ تھے۔
طبی انجمنوں اور تعلیمی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ امتحان امریکا میں لائسنس کے حصول کے لیے دیے جانے والے امتحان جیسا ہے، اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو اس سے طلبہ اور تعلیمی اداروں کی ساکھ پر حرف آئے گا جو 5 سال تک پروفیشنل امتحان لے کر امیدوار کو نوکری کے قابل بناتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں طلبہ کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن کا فیصلہ بھی پی ایم سی کے حق میں آیا۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق ’اس طرح رجسٹریشن کے لیے طلبہ اور والدین پر اضافی مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر ایک طالب علم میڈیکل کالج سے امتحان پاس کرکے پی ایم سی کے امتحان میں فیل ہوجائے تو اسے کسی جگہ پرائیویٹ پریکٹس کرنے سے کون روک سکتا ہے؟
ماہم عروج کا کہنا ہے کہ ہے ’میں اور میرے تمام ہم جماعت اس امتحان کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ امتحان کے لیے رجسٹریشن کروانے کی آخری تاریخ گزر چکی ہے اور مجھے امید کے جو طلبہ پی ایم ڈی سی کے دور میں انرول ہوچکے تھے انہیں استثنیٰ حاصل ہوگا‘۔
تاہم پی ایم سی کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ اگست کے آخری ہفتے میں امتحان لیا جائے گا۔
ہمارے یہاں یہ بیوروکریٹک افراتفری اس وقت مچائی گئی ہے کہ جب دنیا بھر میں میڈیکل کے آخری سال کے طلبہ نے اپنی ڈگریاں وقت سے پہلے مکمل کیں تاکہ کورونا کے خلاف جنگ کا حصہ بن سکیں اور دباؤ میں موجود طبی عملے اور اداروں کی مدد کرسکیں۔ اپریل 2020ء میں امریکا کے 13 میڈیکل اسکولوں نے طلبہ کو جلدی گریجویشن مکمل کرنے اور ہسپتالوں میں کام کرنے کی اجازت دی۔
جب تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور بدعنوانی سے کی گئی بھرتیوں کے مسائل موجود ہوں، پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے مواقع کا فقدان ہو جس کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہو اور ٹیلنٹ کم ہورہا ہو، ایسی صورتحال میں میڈیکل اسکول سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کیا سوچیں گے؟
ایک ینگ ڈاکٹر نے اس حوالے سے کہا کہ، ’گزارا کرنا اور زندگی جینے میں بہت فرق ہوتا ہے‘۔ اس کی آواز میں موجود مایوسی، بغیر کسی پذیرائی، تحفظ اور مراعات کے کورونا مریضوں کا خیال رکھنے سے اس کے چہرے پر نظر آنے والی تھکن اس کے الفاظ سے کچھ زیادہ بتارہی تھی۔
یہ مضمون 22 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او اسی میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری مشقت اور ماحولیات کے موضوعات کی رپورٹنگ کرتی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس haniyajaved1@gmail.com ہے۔
لکھاری مشقت اور ماحولیات کے موضوعات کی رپورٹنگ کرتی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس haniyajaved1@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔