پاکستان

نور مقدم قتل کیس: تھراپی سینٹر کے مالک سمیت 6 ملازمین کی ضمانت منظور

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے والدین اور دیگر 4 ملزمان کے عدالتی ریمانڈ میں 4 ستمبر تک توسیع کردی۔
|

اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن عدالت نے پاکستان کے سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم قتل کیس کی تفتیش کے دوران گرفتار کیے گئے تھراپی سینٹر کے مالک اور مزید 6 ملازمین کی ضمانت منظور کرلی۔

اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی نے اس سےقبل ہونے والی سماعت کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو 50،50 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: نورمقدم قتل کیس: تھراپی سینٹر کے مالک سمیت 6 ملزمان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

قبل ازیں تھراپی سینٹر کے مالک اور دیگر 6 ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی تو ملزم کے وکیل شہزاد قریشی نے کہا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں میرے مؤکل کا نام شامل نہیں ہے، پھر بھی انہیں گرفتا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کا تھراپی کا کام ہے اور وہ لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔

نورمقدم کے وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان ظاہر کے گھر کے اندر دروازہ توڑ کر داخل ہوتے ہیں، ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کیا اور پھر اپنے والدین کو بتایا۔

انہوں نے کہا کہ والدین نے تھراپی سینٹر والوں کو کال کی کہ وہاں جا کر میرے بیٹے کو دیکھیں، جس پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ جو الزام ہمارے پر لگائے گئے ہیں سب جھوٹے ہیں اور تھراپی سینٹر کے ملزمان کی حد تک جو دفعات لگائی گئی ہیں وہ قابل ضمانت ہیں۔

شہزاد قریشی نے بتایا کہ تھراپی سینٹر کے ملزمان کو جب بھی پولیس نے بلایا وہ پیش ہوئے اور تھراپی سینٹر کا مالک عمر رسیدہ شخص ہیں اور اس موقع پر انہوں نے مختلف عدالتوں کے حوالے بھی پیش کیے۔

انہوں نے بتایا کہ میرا مؤکل دل کا مریض ہے، گردہ متاثر اور ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے، اسی دوران ملزم کی میڈیکل ہسٹری عدالت میں پیش کی گئی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: ڈی این اے، فنگر پرنٹس قتل میں ظاہر جعفر کی شمولیت ظاہر کرتے ہیں، پولیس

ملزمان کے وکیل نے کہا کہ جو لوگ ہم نے بھیجے تھے انہوں نے ہی ملزم کو گرفتار کیا اور ہمارے لوگ زخمی ہیں، اس کے باوجود ہمیں گرفتار کیا گیا لہٰذا میری استدعا ہے کہ تھراپی سینٹر کے مالک کی ضمانت منظور کی جائے۔

شہزاد قریشی نے ملزمان کی ضمانت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملازم امجد کو ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے چھری کے وار کر کے زخمی کیا، ہم 5 لوگ موقع پر گئے تھے اور ہم نے کیسے ثبوت مٹائے، اگر ہم ثبوت مٹاتے تو امجد کیسے زخمی ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہی پولیس کو فون کر کے بلایا اور واقعے کے 18 دن بعد ہمیں ملزم بنایا گیا، ہمارا کردار دوران تفتیش سامنے آئے گا، اس لیے استدعا ہے ضمانت منظور کی جائے۔

نورمقدم کے والد کے وکیل شاہ خاور نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تفتیش ہو رہی ہے، کال ڈیٹا ریکارڈ بھی سامنے آیا، سی سی ٹی وی فوٹیج اہم ثبوت ہے، جیسے جیسے لوگوں کے کردار نظر آتے رہے، ان کو نامزد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلا ضمنی بیان 24 جولائی کو مدعی نے دیا تو ملزم کےوالدین سمیت ان ملزمان کو نامزد کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی درخواست ضمانت کا فیصلہ بھی آچکا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک وہ فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم کے والدین کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

تھراپی سینٹر کے مالک کی ضمانت کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تھراپی ورکس کے ملازمین جائے وقوع پر پہنچے تو امجد زخمی ہوا تھا لیکن اس نے پولیس کو واقعے کی اطلاع نہیں دی۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ امجد کو پہلے پرائیویٹ ہسپتال لے کر گئے، جس پر ہسپتال والوں نے کہا کہ یہ پولیس کیس ہے، پھر وہاں سے ان کو پمز منتقل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقتولہ نور نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی مگر ملزم ظاہر جعفر کے والد نے پولیس کو بلوانے کی بجائے تھراپی سینٹر کے مالک کو فون کیا اور ان سے کہا کہ آپ جا کر چیزوں کو دیکھیں حالانکہ تھانہ جائے وقوع سے صرف 10 منٹ کی دوری پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ امجد کی سرجری ہوئی تھی اور ہسپتال سے ڈسچارج ہوا لیکن اس معاملے کو پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا، امجد کو غلط طور پر ملزم نہیں بنایا گیا۔

ملزمان کے وکیل کے دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے دوست وکیل نے جن مقدمات کی مثال دی ہے، وہ اس کیس سے کہیں سے بھی نہیں ملتی، کیونکہ جیسے ہی تفتیش میں تیزی آئی تھراپی سینڑ کے ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

اس موقع پر سرکاری وکیل حسن عباس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم ظاہرجعفر کے والد ذاکر جعفر کو معلوم تھا کہ قتل ہو رہا ہے جبکہ پولیس ہمسائے کے کہنے پر جائے وقوع پر پہنچی۔

انہوں نے کہا کہ ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت اسی لیے خارج ہوئی کیونکہ انہوں نے پولیس کو نہیں بتایا تھا اور اسی طرح زخمی امجد کے ساتھ ہسپتال جانے والے ملزم نے ایمرجنسی میں بتایا کہ روڈ حادثہ ہوا ہے۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان کو7 بجے سے معلوم ہوگیا تھا کہ قتل ہورہا ہے لیکن انہوں نے پولیس کو نہیں بتایا بلکہ ثبوت مٹانے کی کوشش کی،ملزم کے والدین بھی 7 سے 9 بجے تک جائے وقوع پر پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے پولیس کو نہیں بتایا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: شواہد چھپانے، جرم میں اعانت کے الزامات پر ملزم کے والدین گرفتار

حسن عباس نے کہا کہ ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد ازاں سنا دیا گیا اور تھراپی سینٹر کے مالک سمیت 6 ملزمان کی درخواست منظور کرلی گئی۔

ملزم کے والدین کے ریمانڈ میں توسیع

نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین سمیت دیگر 4 ملزمان کے عدالتی ریمانڈ میں مزید توسیع کی گئی۔

ڈیوٹی جج جوڈیشل مجسٹریٹ مقصود احمد انجم نے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کی درخواست پر سماعت کی اور 6 ستمبر تک توسیع کر دی۔

پولیس نے ملزمان کو بخشی خانہ لایا اور بذریعہ روبکار حاضری لگا کر جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی گئی۔

نور مقدم قتل کیس

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نور مقدم گھر سے غائب تھیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند تھا اور اس کی تلاش شروع کی گئی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے لڑکی کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

طالبان نے افغانستان کے مرکزی بینک کا نیا عبوری سربراہ مقرر کردیا

ماں کا دودھ نومولود کو خون کی بیماریوں سے بچانے کیلئے مفید

شاہین کی 6 وکٹیں، پہلی اننگز میں ویسٹ انڈیز 150 رنز پر ڈھیر