دنیا افغانستان کے مشکل وقت میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان سے غیر ملکی شہریوں کے انخلا کے لیے پاکستان کی کوششوں کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ہمارے کردار کو سراہتی ہے اور افغانستان کے حوالے سے ہمارے ساتھ ہم آہنگی موجود ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں افغانستان سے غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کئی افراد کو یہاں پہنچنے پر ویزا جاری کیا، جس کی تعداد 409 ہے، جنہیں اسلام آباد پہنچنے پر ویزے فراہم کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کابل میں ہمارا سفارت خانہ اور سفیر مقامی حکام کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں اور جو ہمارے سفارت خانے کی طرف آنا چاہتے ہیں ان کی سلامتی اور پھر ایئرپورٹ منتقل کرنے کے لیے سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق کابل میں حالات معمول پر ہیں لیکن ایئرپورٹ کے اطراف میں دباؤ ہے، جہاں ہزاروں لوگ موجود ہیں جو باہر جانے کی خواہش رکھتے ہیں، جس پر بین الاقوامی میڈیا کی بھی توجہ دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ میں انخلا کے لیے ایک سیل قائم کردیا ہے، جو 16 اگست سے فعال ہے اور 24 گھنٹے کام کر رہا ہے جہاں تمام متعلقہ اداروں وزارت داخلہ، خارجہ، آئی ایس آئی، اسلام آباد پولیس اور سول ایوی ایشن کے عہدیدار موجود ہیں جس کا مقصد فوری مدد فراہم کرنا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 15 اگست سے آج تک کابل سے اسلام آباد کے درمیان پاکستان انٹرنیشنل ایئر کی 5 پروازیں ہوئیں اور ان پروازوں میں ہم 542 غیرملکی شہریوں اور 91 پاکستانیوں کو وطن واپس لائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس مقصد کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے کی بھی اجازت دی ہے اور اب تک 56 معاملات پر اجازت دی گئی ہیں اور اس سے اب تک 17 غیر ملکی ایئرلائنز نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کی فراہم کردہ سہولت سے 28 ممالک کے شہری مستفید ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے عہدیداروں کو بھی وہاں سے نکالا گیا اور عالمی بینک کے 293 عہدیداروں کو کامیابی سے افغانستان سے منتقل کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے اب تک انخلا کی مہم کے دوران مجموعی طور پر 3 ہزار 234 غیر ملکی شہریوں اور عالمی اداروں کے عہدیداروں کو سہولت فراہم کی، ان میں 323 پاکستانی ہیں اور باقی سب غیر ملکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ جامع عبوری حکومت قائم ہو اور جتنے ممالک کے وزرائے خارجہ سے میری بات ہوئی ہے وہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس مشکل وقت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری افغانستان کے حوالے سے ہمارے مؤقف سے ہم آہنگی رکھتی ہے۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں میری اطلاعات کے مطابق صرف 5 سفارت خانے فعال ہیں اور ان میں پاکستان بھی شامل ہے اور پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
بھارت کے افغانستان سے اچھے تعلقات پر اعتراض نہيں ہے، وزیر خارجہ
قبل ازیں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری سے افغانستان میں بحالی کے کام میں مدد کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت کے افغانستان سے اچھے تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کی صورت حال پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارتی ميڈيا نے ميرے کابل جانے کا واويلا کيا، بھارتی ميڈيا نے غير ذمہ دارانہ گفتگو کی، اس سے ان کی اپنی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: کابل ایئرپورٹ پر افراتفری کے دوران مزید 7 افغان باشندے ہلاک ہوگئے، برطانوی فوج
انہوں نے کہا کہ بھارتی ميڈيا کو بات کرنے سے پہلے تصديق کرنا چاہيے، کابل نہيں گيا، پاکستان ميں ہی اہم ملاقاتیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کل میری یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل سے گفتگو ہوئی اور ان کے ساتھ افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے انہیں کابل سے مختلف ممالک کے سفارتی عملے اور شہریوں کے انخلا کے سلسلے میں پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی معاونت سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں موجودہ چیلنجز کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے خطے کے اہم ممالک تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران جاؤں گا اور وہاں کی قیادت کے ساتھ مشاورت کروں گا۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ چین کے ساتھ ہماری گفتگو ہو چکی ہے۔
افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک کثیر النسل ملک ہے، اس تناظر میں ہم چاہتے ہیں کہ وہاں جو حکومت سامنے آئے وہ وسیع البنیاد اور اجتماعیت کی حامل ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ افغانستان میں امن مخالف قوتیں ‘اسپائیلرز’ آج بھی متحرک ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں دیرپا امن ہو۔
یہ بھی پڑھیں: کابل ایئرپورٹ: طیارے سے لٹک کر افغانستان چھوڑنے والے شہریوں سمیت 5 ہلاک
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خطے کے ہمسایہ ممالک افغانستان میں قیام امن چاہتے ہیں اور ہندوستان کو بھی اپنی محدود سوچ کو ترک کرنا ہو گا۔
بھارت کے رویے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان اگر پاکستان کو نیچا دکھانے کی سوچ پر کاربند رہا تو وہ خطے کی کوئی خدمت نہیں کرے گا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت، افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا دعويدار رہا ہے اور ہمیں بھارت کے افغانستان سے اچھے تعلقات پر اعتراض نہيں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا فوکس کسی ايک گروپ پر نہيں، پاکستان کی سوچ افغانستان کی بہتری ہے، افغان عوام کے ليے سازگار ماحول پيدا کرنا چاہتے ہيں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان ميں خوش حال اور ترقی چاہتے ہيں، افغان عوام کے بارے ميں سوچنے والوں سے بات کررہے ہيں اور عالمي برادری کو افغانستان سے تعلقات بحال رکھنے چاہيے، افغان عوام کو يہ تاثر دينا چاہيے کہ ہم انہیں بھولے نہيں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ باہر جانے والوں کی مدد کريں گے، افراتفری نہ پھيلائی جائے، دعاگو ہيں کہ افغانستان ترقی کرے، افغانستان کی ترقی کے لیے پڑھے لکھے لوگ درکار ہيں، سب باہر چلے گئے تو افغانستان سے محبت کرنے والوں کا ملک متاثر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جان کا تحفظ، بنيادی حقوق کا احترام ضروری ہے، افغانستان کا بہتر مستقبل ضروری ہے۔
وزیر خارجہ کا سعودی ہم منصب سے رابطہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور دو طرفہ تعلقات، افغانستان کی صورت حال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: طالبان کا افغان حکومت اور اتحادی افواج کے ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پر امن افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہمیں توقع ہے کہ افغان قائدین، افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے، اجتماعیت پر مبنی سیاسی حل نکالیں گے۔
انہوں نے سعودی ہم منصب کو کابل سے مختلف ممالک کے سفارتی عملے، بین الاقوامی اداروں کے عہدیداروں اور میڈیا نمائندگان کے انخلا میں پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی معاونت سے آگاہ کیا۔
دونوں وزرائے خارجہ نے دو طرفہ تعلقات کی موجودہ نوعیت پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے، انہیں مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا اور فیصلہ کیا کہ باہمی دلچسپی کے امور پر مشاورت کا سلسلہ جاری رکھاجائے گا۔