اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملے، سرحد پر تصادم میں درجنوں افراد زخمی
فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان تصادم کے دوران درجنوں افراد زخمی ہوگئے جس کے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پر بمباری کردی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تصادم کے نتیجے میں زخمی ہونے والے اسرائیلی سرحدی پولیس کے اہلکار اور 13 سالہ فلسطینی لڑکے کی حالت تشویشناک ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہتھیاروں کے ٹھکانوں پر 4 فضائی حملے کیے جبکہ غزہ ڈویژن میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے۔
کشیدگی میں حالیہ اضافہ 3 ماہ قبل حالیہ برسوں کی شدید ترین لڑائی کے بعد محصور پٹی کی حکمران جماعت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سامنے آیا۔
فوج اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کی سرحدی دیوار کے قریب جمع ہونے والے فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کی۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کے غزہ پر پھر فضائی حملے، فائرنگ سے فلسطینی خاتون جاں بحق
دوسری جانب ایک فلسطینی مسلح شخص نے دیوار میں ایک سوراخ سے اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کی جبکہ نوجوان مظاہرین کے ہجوم نے رکاوٹ کے اوپر سے بارودی مواد پھینکا اور اسے عبور کرنے کی کوشش کی۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کے محکمہ صحت کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں ایک 13 سالہ لڑکا بھی شامل ہے جو سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے شدید زخمی ہے۔
وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ 41 شہریوں کو مختلف زخم آئے، حماس کا کہنا تھا کہ مظاہرے میں 'ہزاروں' افراد نے شرکت کی تھی۔
مزید پڑھیں: غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری سے 14 بچوں سمیت 56 فلسطینی جاں بحق
اسرائیلی سرحدی پولیس کا کہنا تھا کہ ایک فلسطینی شخص کی فائرنگ سے انڈر کور یونٹ کا 21 سالہ اسنائپر شدید زخمی ہوا، اس کی حالت تشویشناک ہے اور زندگی خطرے میں ہے۔
حماس کی احتجاج کی اپیل
اسرائیلی پولیس کمشنر کوبی شبطائی نے ایک بیان میں اس عزم کا اظہار کیا کہ 'جو لوگ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کے خلاف سختی سے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ کارروائی جاری رکھیں گے'۔
وزیر دفاع بيني گانتس نے خبردار کیا کہ 'یہ انتہائی سنگین واقعات ہیں جن کا جواب لازمی دیا جائے گا'۔
وزیر دفاع کے بیان کے فوراً بعد اسرائیلی فضائیہ نے ٹوئٹر پر کہا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے حماس دہشت گرد تنظیم کے ہتھیاروں کی تیاری اور ذخائر کے 4 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
فضائی حملوں میں فوری طور پر جانی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے غباروں کے جواب میں اسرائیل کے غزہ میں ایک بار پھر فضائی حملے
بیت المقدس میں اسلام کے تیسرے مقدس مقام مسجدالاقصیٰ کو نذرآتش کرنے کے 52 سال مکمل ہونے پر حماس نے ہفتے کو مظاہرے کی اپیل کی تھی۔
تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ 'مسجد الاقصیٰ ایک سرخ لکیر ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا حملہ کرنے پر ہمارے لوگوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا'۔
بعدازاں حماس اور غزہ کی دیگر تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ 'بہادر نوجوانوں کو سلام ' جنہوں نے اسرائیلی فوج سے مقابلہ کیا۔
21 مئی کو نافذ العمل ہونے والی جنگ بندی کے بعد ہونے والی یہ کشیدگی بدترین تھی۔
یاد رہے کہ مئی کے مہینے میں اسرائیل نے 11 روز تک غزہ پر شدید فضائی بمباری کی تھی جس کا جواب محصور پٹی سے حماس کے جنگجوؤں نے راکٹس فائر کر کے دیا تھا۔
غزہ کی تعمیر نو
حماس کا کہنا تھا کہ اس نے مئی میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مسجد الاقصیٰ پر دھاوا بولنے کے بعد کارروائی کی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی جنگی طیاروں کی غزہ کی پٹی پر بمباری
جنگ بندی کے بعد سے غزہ میں تعمیر نو رکی ہوئی ہے، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے 2007 میں حماس کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے محصور پٹی کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔
جمعرات کو اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ قطر سے غریب فلسطینیوں کے لیے غزہ پہنچنے والے فنڈ کی اجازت دیتا ہے لیکن دیگر پابندیاں قائم رہیں گی۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی بڑی حد تک برقرار ہے لیکن کشیدگی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
ان کے میزائل دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ نے جنگ بندی کے بعد غزہ میں موجود جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل کی جانب پھینکا گیا پہلا راکٹ روک دیا۔
مزید پڑھیں: جنگ بندی کے بعد فلسطین میں عالمی امداد پہنچنے کا سلسلہ شروع
یہ واقعہ مقبوضہ مغربی کنارے کے جنین مہاجر کیمپ میں 4 فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا۔
خیال رہے کہ سال 2018 میں، غزہ کے عوام نے ایک احتجاجی تحریک شروع کی جس میں اسرائیلی ناکہ بندی کو ختم کرنے اور یہودی ریاست کے قیام کے بعد بے دخل ہوجانے والے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر واپس آنے کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
حماس کی حمایت سے ہونے والے مظاہرے اس وقت شروع ہوئے تھے جب ایک سال کے عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں تقریباً ساڑھے 3 سو فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا۔