پاکستان

ازخود نوٹس کے معاملات پر غور کیلئے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل

عدالت عظمیٰ کسی بینچ کے ازخود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار کے معاملے پر وضاحت فراہم کرنے کی کوشش کرے گی، رپورٹ

اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کا نوٹس لینے کے بعد کسی بینچ کی جانب سے از خود نوٹس کے دائرہ اختیار کے معاملے پر وضاحت فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ پیر کو اس کی سماعت کرے گا، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین اور جسٹس علی مظہر شامل ہیں۔

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے پریس ایسوسی ایشن پاکستان کی درخواست پر نوٹس لیا تھا جس میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کا ذکر تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا نوٹس لے لیا

ساتھ ہی عدالت نے حکومت کے 3 اہم اداروں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور سیکریٹری داخلہ کو 26 اگست کو طلب کیا تھا۔

اس کے علاوہ عدالت نے وزارت اطلاعات، داخلہ، مذہبی امور اور انسانی حقوق کے سیکریٹریز، مختلف میڈیا اداروں اور تنظیموں مثلاً کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے علاوہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو بھی نوٹس بھیج تھا کہ بتایا جائے کہ کیا درخواست میں لگائے گئے الزامات درست ہیں۔

تاہم ہفتے کو سپریم کورٹ نے 2 رکنی بینچ کی جانب سے وفاقی، صوبائی حکومتوں، دیگر اداروں کے ساتھ صوبوں اور وفاق کے لا افسران کو بھیجے گئے نوٹس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے معاملے کو اسی بینچ کے سامنے 26 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار کے حوالے سے وضاحت فراہم کرنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیار پر چیف جسٹس اور اعتزاز احسن میں مکالمہ

تجزیہ کاروں کے مطابق مسلسل از خود نوٹس لینے کا عمل اعلیٰ بارز مثلاً پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے زیر نگرانی رہا ہے اور پی بی سی کی جانب سے آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت اس عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد تشکیل دینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

پی بی سی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ اگر معاملہ عدالتی میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے تو سپریم کورٹ اس پر غور کے لیے تمام 17 ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت دائرہ کار کے تعین کے لیے عدالتی اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں از خود نوٹس کے تواتر سے استعمال کے باعث وکلا برادری کی جانب سے اعتراض کیا جاتا تھا۔

این سی او سی کا سکھ یاتریوں کیلئے کرتار پور دربار کھولنے کا فیصلہ

دوسرا ٹیسٹ: پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دوسرے دن کا کھیل بارش کی نذر

ممکنہ خطرے کے سبب امریکا کا اپنے شہریوں کو کابل ایئرپورٹ کا سفر نہ کرنے کا مشورہ