پہلی اینگلو افغان جنگ: ایک جنگی سفر کی کتھا (دوسرا حصہ)
اس سیریز کی گزشتہ قسط یہاں پڑھیے
جاڑوں کا سخت موسم اپنے اختتام کی پگڈنڈیوں پر چل پڑا تھا۔ 25 اپریل 1839ء کو شاہ شجاع کی تاج پوشی کی رسم بھی ہوچکی تھی۔ شاہ شجاع نے تاج پوشی کے بعد جو سکہ رائج کیا تھا، اس پر جو عبارت تحریر تھی اس کا ترجمہ کچھ اس طرح تھا کہ، 'چاند اور سورج سے زیادہ روشن، درانی خاندان کے نورچشم شاہ شجاع الملک نے سونے اور چاندی کا یہ سکہ ڈھالا ہے'۔
اس تحریر پر ایک افغانی شاعر نے طنز بھی کیا، جس میں شاہ شجاع کو انگریزوں کا غلام اور ان کے قدموں کی دھول کہا گیا۔ کچھ بھی تھا اب افغانستان کا بادشاہ شاہ شجاع تھا۔
جنگی لشکر کی سپاہ نے 2 ڈھائی ماہ تک آرام کیا، اور اب وہ غزنی کی طرف چل پڑے تھے۔ غزنی کا حاکم نواب غلام حیدر خان تھا جو امیر دوست محمد کا بیٹا تھا۔ جنگی لشکر کے ساتھ 'شاہ شجاع' بھی تھا۔ یہ 21 جولائی 1839ء کو غزنی پہنچے۔ 'ہم جیسے ہی قلعے کے نزدیک پہنچے تو قلعے سے توپ کا ایک گولہ ہمارے لشکر پر آگرا۔ تمام دن گولیوں کا تبادلہ جاری رہا۔ ہم نے اپنا کیمپ قلعے سے 4 میل دُور لگایا۔ دوسرے دن بھی شدید لڑائی ہوتی رہی جس میں کمپنی کے بہت سارے لوگ مارے گئے، شام کے وقت مخالفین کے 30 آدمی پکڑ لیے گئے تھے‘۔
گرفتار لوگ شاہ شجاع کے سامنے پیش کیے گئے۔ بادشاہ نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا اور بغیر غسل و کفن ٹھنڈے جسموں کو قبر میں پھینک دیا گیا کہ جنگ کے میدان کے آسمان سے رحم اور عنایتوں کی بدلی کبھی نہیں برستی اور جو ان چیزوں کے طلبگار ہوتے ہیں وہ جنگوں کے میدانوں کو آباد نہیں کرتے۔ بخاری صاحب لکھتے ہیں، 'بالآخر اگلے دن سخت جنگ کے بعد کیپٹن ٹامسن نے قلعے کا کابلی دروازہ بارود سے اڑادیا، اور یوں غزنی کے مشہور قلعے پر کمپنی کا قبضہ ہوگیا۔ قلعے سے سارے لوگ بھاگ گئے مگر نواب غلام حیدر خان فرار نہیں ہوا اور اسے گرفتار کرلیا گیا‘۔
بخاری صاحب کے مطابق قلعے سے جو کچھ ملا اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
- 3 ہزار ترکی، خراسانی اور ایرانی نسل کے گھوڑے
- 2 ہزار کابلی، بلخی، بخاری اور بغدادی اونٹ
- ایک ہزار کے قریب اصفہانی اور ایرانی تلواریں
- ہزاروں کتابیں
- سیکڑوں کشمیری شالیں
- ہزاروں من کشمش، بادام، پستہ، تیل، چاول اور دیگر خوراک کا سامان
یہ سب سامان انگریز سرکار کے خزانے میں جمع ہوا۔
مصنف کے مطابق ’شاہ شجاع کا خیال تھا کہ نواب اس کے حوالے کیا جائے مگر کمپنی نے اسے اپنی تحویل میں رکھا۔ 3 دن کے بعد امیر دوست کا بھائی 'عبدالجبار خان' 500 گھڑ سواروں کے ہمراہ ہمارے کیمپ پر آیا اور سیدھا بادشاہ سے بات کرنے اس کے خیمے میں گیا۔ بات کیا ہوئی، یہ پتا نہ چل سکا البتہ ان کو جو کھانے کا سامان قلعے سے ملا تھا وہ جنرل صاحب نے قرب و جوار کے گاؤں میں بانٹنے کا آرڈر دیا۔ اگلے دن کچھ پلٹنیں اور جنرل سکندر کا رسالہ یہاں غزنی میں قیدیوں پر نظرداری کے لیے چھوڑ کر باقی ساری فوج طبل بجاتی کابل کی طرف روانہ ہوئی۔ غزنی سے 6 منزلیں کرنے کے بعد خبر پہنچی کہ امیر دوست محمد خان نے کابل کے نزدیک قاضی قلعے کے نزدیک 'اورکنڈ' میدان میں توپوں کے ساتھ اپنا کیمپ قائم کیا ہوا ہے، حالانکہ اس کا بیٹا گوروں کی قید میں تھا۔ تاہم اس کے ساتھیوں نے اس سے غداری کی اور فرنگیوں کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ دوسری طرف سے بھی امیر دوست کے لیے بُری خبر تھی‘۔
امیر دوست کا بیٹا محمد اکبر خان جو 'خیبر لک' میں سکھوں کے مددگاری لشکر کے لیے ٹھہرا ہوا تھا، اس کو افغانیوں نے زہر دے کر مرنے جیسا کردیا تھا اور چارپائی پر ڈال کر رات کے وقت امیر دوست کے پاس چھوڑ گئے۔ اپنے نوجوان بیٹے کا یہ حال دیکھ کر امیر دوست اندر سے جیسے ٹوٹ گیا۔ کیونکہ جب آپ کے ہاتھ میں فقط مجبوری کا آبخورہ رہ جائے اور اس میں پڑا ہوا صبر و برداشت کا پانی پینے کے سوا کوئی چارہ نہ بچے تو انسان کی کیفیت اس سپاہی کی سی ہوتی ہے جو دن ڈھلے جنگ کے میدان میں اپنا سب کچھ ہار کر تھکے قدموں سے اپنے کیمپ کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ امیر دوست نے بھی ایسا کیا۔ وہ اپنے جانوروں کے ریوڑ اور اہل و عیال، جن میں 23 فرزند، 700 بھانجے، 13 بھتیجے، 23 پوتے، 300 مرد غازی ہندوستانی اور 400 غلام شامل تھے، کو لے کر بلخ کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ اگست 1839ء کا واقعہ ہے۔
حالات بھی آسمان میں اُڑتے شکرے کی طرح ہوتے ہیں نہ جانے کس وقت پلٹ جائیں؟ مگر اس وقت ایسا لگتا تھا کہ گوری سرکار کے لیے حالات کوئی اتنے بُرے نہیں تھے۔ یہ لشکر غزنی کے بعد کابل پہنچا۔ مصنف ہمیں ان دنوں کے کابل سے متعلق بتاتے ہیں کہ، 'کابل شہر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ خدا نے جنت یہیں پر بنائی ہے۔ یہاں 4 بڑے اور پکے بازار اور کئی باغات ہیں۔ پانی کا بہاؤ بھی شاندار ہے۔ یہاں شاہ باغ دیکھنے کے لیے ایک خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں 22 قسموں کے انگور ہوتے ہیں، شہر کا جو قلعہ ہے اسے 'بالا حصار' کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں کوئی بھی بھکاری نہیں ہے۔ ہر گھر میں میوہ دار درخت ہیں اور ہر گھر میں پانی کی نہر بہہ کر آتی ہے۔ شہر کے اطراف میں، افغان کوہستانی رہتے ہیں جن کی زبان پشتو ہے۔ یہ بہت جھگڑالو لوگ ہیں'۔
شاہ شجاع کابل کے قلعے میں داخل ہونے کے ساتھ رو پڑا۔ شاید اسے یقین نہیں تھا کہ اسے اپنا تخت واپس ملے گا۔ 20 اگست 1839ء تک، شاہ شجاع کے بیٹے 'تیمور' نے گوری سرکار کی طاقت سے جلال آباد پر قبضہ کرلیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہمارا مصنف انگریز ٹیم کے ساتھ، امیر دوست محمد خان کے لیے 'بامیان' روانہ ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 'بامیان، کابل سے 200 میل دُور اور بلخ کی طرف واقع ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد ہم ایک علاقے 'غلغلو' پہنچے، جہاں چنار کے بڑے بڑے درخت ہیں، یہاں پورے برس برف پڑتی رہتی ہے۔ یہاں ہزارہ قوم کے لوگ رہتے ہیں جن کی زبان فارسی اور ترک ہے'۔ یہاں پہنچنے پر ان کو پتا چلا کہ، امیر دوست بخارا کی طرف گیا ہے اور وہاں کے بادشاہ کا مہمان بن کر رہ رہا ہے۔ یہ ٹیم کچھ دن وہاں گھوم پھر کر واپس کابل پہنچتی ہے۔
کچھ وقت کے بعد جنرل نے بمبئی سے آئی ہوئی فوج کو واپس لوٹنے کا حکم دیا۔ مگر یہ فوج جیسے خیبر لک پہنچی تو وہاں کے خیبری افغانیوں نے ان سے جنگ شروع کردی، اس لیے کابل سے فوج بھیج دی گئی۔ اس جنگ میں کمپنی سرکار کی جیت ہوئی۔ کمپنی سرکار کو یکے بعد یگرے ملتی کامیابیوں نے ان کے خود اعتمادی کے درخت کو ہرا بھرا کردیا تھا۔ مگر ان کو شاید یہ پتا نہیں تھا کہ جب بدقسمتی کا پالا مارتا ہے تو گھنٹوں میں برسوں کی ہریالی کو بے رنگ اور بے جان کردیتا ہے۔ کامیاب جنگ کے اختتام پر بھیجی گئی 2 پلٹنیں، پشاور کی طرف نکل گئیں کہ وہ خزانہ لاسکیں جو دہلی سے آیا تھا۔ جب سپاہی خزانہ لے کر واپس آ رہے تھے تو افغانیوں نے پھر حملہ کیا اور گوری سرکار کی خوش فہمی اور غلط اندازوں کی وجہ سے، ایک بار پھر جنگ لڑنی پڑی اور خزانہ چُھڑانے کے لیے افغان سرداروں سے معاہدہ کرنا پڑا۔ معاہدے کے مطابق افغان سرداروں کو انگریزوں کے خزانے سے سالانہ 80 ہزار روپے دینے ہوں گے اور ساتھ میں 70 ہزار فوجی اور 12 قلعے بھی ان کی تحویل میں دیے گئے، اور یہ بھی طے پایا کہ اس درے سے چاہے کوئی بھی گزرے، لوگ ہوں یا فوج، ایک روپیہ محصول ادا کرنا ہوگا۔
کابل کے شمال مشرق میں بدخشان صوبہ واقع ہے۔ اس طرف کٹور قلعے پر سیدوں کے کہنے پر انگریز سرکار نے جو زبردستی قبضہ کیا تھا، اس ٹیم میں ہمارے مصنف فدا حسین بخاری بھی شامل تھے جو بس مرتے مرتے بچے۔ اس سفر کی بڑی طویل دلچسپ داستان ہے، مگر ہم مختصراً سُن لیتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ 'کٹور کے ساداتوں نے ایک لاکھ سے زیادہ رقم خراج کے طور پر دی تھی اور گوری سرکار سے وفادار رہنے کی بھی قسم کھائی اس لیے ہمیں توپوں کے ساتھ اس طرف بھیجا گیا۔ جلال آباد سے کٹور کی طرف ابھی 8 میل بھی نہیں چلے ہوں گے کہ آسمان سے اتنی برف اور بارش پڑنے لگی کہ ساری فوج حواس باختہ ہوگئی۔ 4 دنوں تک یہی حال رہا، ہم بھی سفر کرکے کٹور کے نزدیک پہنچے۔ دوسرے دن حملے کا حکم دیا گیا۔ 2 نمبر رسالہ کا سپہ سالار مرزا نادر علی بیگ بہادری کا مظاہرہ کرکے قلعے کی دیوار پر چڑھ گیا۔ ساری فوج کھڑی تھی مگر کوئی آگے نہیں آیا۔ اس عاجز (فدا حسین سید) نے بھی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی کہ اچانک مخالفین کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی اور یہ بندہ مرتے مرتے بچا۔ آخر ایک ہفتے کی لڑائی کے بعد ہم کامیاب ہوئے اور سارے انتظامات مکمل کرکے سید بابو خان کو مسند پر بٹھا کر ہم جلال آباد لوٹ آئے۔ وہاں پہنچنے پر، جنرل کا حکم ہوا کہ 30 نمبر پلٹن اور لال کُڑتی گوروں کی پلٹن جلال آباد سے 24 میل دُور جاکر بیس بنائیں اور وہاں رہیں کہ وہاں گرمی کم ہے اور ہریالی اور باغات کی بہتات ہے‘۔
ہمارے مصنف جب شاہ شجاع کے ساتھ کابل لوٹے تو ان کو پتا چلا کہ نومبر 1839ء میں جو فوج واپس بمبئی جا رہی تھی اس کے کمانڈر جنرل ولٹ شایر نے قلات پر حملہ کردیا ہے، جس کی وجہ سے اس طرف حالات بگڑنے لگے تھے اور بلوچستان کی طرف مری اور بگٹی بلوچوں نے کچھ انگریز افسروں کو قتل کردیا ہے۔ ان واقعات کے بعد سندھ میں سکھر کی طرف بھی حالات بگڑنے لگے جن کو سنبھالنے کے لیے فیروزپور، بمبئی اور کَچھ سے فوج سکھر بھیجی گئی۔ ڈھاڈھر کی طرف، قلات کے والی نصیر نے حملہ کرکے کمپنی کے کیمپ پر قبضہ کرلیا۔ نصیر خان کو سزا دینے کے لیے قندھار سے بلوچستان فوجیں بھیجی گئیں تو راستے میں 'غلزیوں' سے ٹکراؤ ہوا۔ غزنی کی طرف 'شمس الدین' کمپنی سے بھڑ گیا۔ قندھار سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے تک جو راستہ تھا وہ اس شورش کے بھینٹ چڑھ گیا۔
1840ء کا گرم موسم افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے لیے خوشگوار ثابت نہیں ہونے والا تھا۔ امیر دوست کے نصیب اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ اس کے بھائی عبدالجبار خان نے بھی اس کے ساتھ بڑا دھوکا کیا۔ ہونا یہ تھا کہ عبدالجبار خان کو امیر دوست کا سارا خاندان 'سبز' کے بادشاہ کی طرف لے جانے والا تھا مگر وہ شاہ شجاع اور گوروں سے سازباز کرکے امیر دوست کا خاندان غزنی لے گیا اور وہاں قید کروا دیا۔ اس وقت دوست محمد خان بلخ میں تھا، اس کو جب یہ پتا چلا کہ اس کے بھائی نے اس کے ساتھ غداری کی ہے تو دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ جب سب کچھ چھن جائے اور کھونے کے لیے کچھ نہ بچے تو تنگ آمد بجنگ آمد کا راستہ ہی بچتا ہے۔ امیر دوست نے یہی راستہ اختیار کیا اور بلخ سے بامیان کی طرف روانہ ہوا۔
افغانستان میں حالات بگڑ رہے تھے۔ جب مقامی سرداروں کو پتا چلا کہ امیر دوست محمد واپس لوٹ آیا ہے تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس اتحاد کی خبر یقیناً کمپنی حکومت کے لیے کوئی اچھی نہیں تھی۔ دوست محمد کی بہادری کے قصے ہمیں ہمارا مصنف بتاتا ہے۔ اس کا جو پہلا ٹکراؤ، بامیان میں گوری سرکار سے ہوا اس کا تھوڑا احوال سن لیجیے۔
'امیر دوست جیسے بامیان پہنچا تو اس کا ٹکراؤ فرنگی فوج سے ہوا۔ واکر صاحب کی زیرِ کمان کمپنی فوج کا مقابلہ بادشاہی سے ہوا، اسی جنگ میں سرکاری فوج کی مدد کے لیے کابل سے ایک پلٹن، ایک توپ خانہ اور ایک بادشاہی پلٹن بھی تھی۔ اس جنگ میں ایک جنگ امیر کی فوج نے جیتی۔ 4 دنوں کے بعد پھر طرفین آمنے سامنے ہوئے۔ امیر 500 گھڑ سواروں کی فوج لے کر میدانِ جنگ میں اترا۔ جنگ میں تیر اور تلواریں اس انداز سے چلائیں کہ سرکاری فوج کوسوں دُور چلی گئی اور فرنگیوں کا سارا سامان، امیر کے ہاتھ لگا۔ اس کے بعد امیر دوست کی دہشت فرنگیوں، بادشاہ اور اس کی فوج پر طاری ہوگئی بلکہ جب امیر دوست کابل سے 200 میل دُور تھا تب بھی شاہ شجاع یہاں کانپتا تھا۔ وہ رات کو محل کے بجائے شاہی باغ میں جاکر سوتا تھا۔ یہ خبر جب لارڈ (آکلینڈ) صاحب اور کرنیلی صاحب تک پہنچی تو انہوں نے 2 پلٹنیں اور 2 ہزار سوار جانبازوں کو قلعے میں مقرر کیا اور ہم، ایک پلٹن گوروں کی لال کُڑتی کی، ایک پلٹن بلونت ویر کی، 2 ترپ (80 سواروں کی جماعت، رسالے کا آٹھواں حصہ) ترک سواروں کے امیر، دوست محمد خان کا راستہ روکنے کے لیے کوہ ہندوکش کی طرف روانہ ہوئے۔'
یہ کابل سے 60 میل شمال میں 'کاریچار' (یہ کوہ دمن کی خوبصورت گھاٹی ہے اور صوبہ پروان میں ہے) میں پہنچے۔ ہمارے مصنف بتاتے ہیں کہ، ’ہمارا کمانڈر جنرل رابرٹ سیل تھا، ہم جب کاریچار پہنچے تو حیران رہ گئے کہ کوئی علاقہ اتنا بھی خوبصورت ہوسکتا ہے۔ یہاں پانیوں کے چشمے اور نہریں بے تحاشا ہیں، ذائقہ دار میوؤں اور پھولوں کی بیلیں ایک بہشت کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔ یہاں کے انگور بڑے ٹھنڈے اور شیریں ہیں۔ یہاں خوبانی، شفتالو، ناشپاتی، انار مطلب ہر میوہ ہے۔ ہم اس سے آگے 32 میل گئے اور ہندوکش پہنچے۔ حاصل مطلب یہ کہ 20 دنوں میں امیر دوست سے 13 جنگیں ہوئیں مگر ہم نے شکست پر شکست کھائی اور ہمارے لوگ مسلسل مرتے رہے۔ بڑا جانی نقصان ہوا۔ ہمارے لشکر نے ضروری سامان لیا اور چاریکار لوٹ آئے۔ یہاں ان کو پتا لگا کہ نواب دوست محمد خان میر مسجدی کے قلعے کی طرف جا رہا ہے۔ یہ قلعہ ہم سے 18 میل دُور تھا۔ ہم نکل پڑے اور کوٹ سے 4 میل دُور جاکر کیمپ لگایا۔ اگلے دن جنگ شروع ہوئی۔ یہ جنگ 3 دن تک جاری رہی مگر ہماری فوج قلعے میں داخل نہ ہوسکی۔ تیسرے دن میر مسجدی چھپ چھپا کر آیا اور قبر کے کتبے کا سہارا لے کر کیپٹن برن صاحب کو گولیوں سے بھون دیا'۔
بعدازاں گوری سرکار اور دوست محمد خان کی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ خان کوٹ پر حملہ ہوتا ہے، ایک ہزار سے زیادہ توپ کے گولے پھینکے جاتے ہیں مگر دوست محمد اس گھیراؤ سے نکل جاتا ہے۔ دس بارہ دنوں کے بعد خبر ملتی ہے کہ چاریکار کے جنوب میں ایک پہاڑی پر دوست محمد اپنے 50 ساتھیوں کے ساتھ موجود ہے، گھیراؤ ہوتا ہے اور دوست محمد 100 کے قریب سپاہیوں کو مار کر گھیرے سے نکل جاتا ہے۔ جنگی ماحول میں ایسے واقعات بڑے خطرناک اثر مرتب کرتے ہیں کیونکہ ایک طرف ہزاروں کی فوج، توپیں، بارود وغیرہ ہونے کے باوجود ایک آدمی اپنے 50 آدمیوں کے ساتھ آئے اور مخالفین کو اتنا جانی نقصان دے کر چلا جائے ایسے میں مخالفین پر تناؤ تو بڑھے گا۔ جنرل سیل اور جنرل میکناٹن سخت پریشان تھے۔ وہ کسی بھی حالت میں دوست محمد کو جنگ کے اس منظرنامے سے نکالنا چاہتے تھے۔
پیسہ اگرچہ سب کچھ نہیں مگر بہت کچھ ضرور ہے۔ اس پیسے نے ایسے ایسے آستین کے سانپوں کو جنم دیا ہے کہ سوچ کر حیرانی کے ساتھ گھن آتی ہے۔ مگر آپ کچھ نہیں کرسکتے کہ بس تہذیب کی باریک سی لکیر ہے اگر وہ ہٹ جائے تو غداری اور پیسوں کے لیے سب کچھ کر گزرنا ہم انسانوں کے خون میں ہے۔ پیسوں سے ایسی کٹار ضرور خریدی جاسکتی ہے جو آپ کے مخالف کے پیٹھ میں ماری جاسکے۔ گوری سرکار نے یہ حربہ استعمال کیا اور اعلان کیا کہ جو دوست محمد کو پکڑوائے گا اس کو 2 لاکھ کا انعام دیا جائے گا۔ دوست محمد کو دشمن کو کھدیڑنے کے لیے اپنوں سے جو انعام ملنے والا تھا وہ آپ بھی سن لیں۔
’ان جنگوں کے دوران ایک دن امیر دوست اپنے 15 اہم لوگوں کے ساتھ سردار عبدالسبحان خان کے پاس گیا۔ اس سردار کے پاس 10 ہزار سوار اور پیادوں کا لشکر تھا اور قرب و جوار کے 8 قلعوں کا سردار تھا۔ دوست محمد خان کے پہنچنے پر اس نے بڑی آؤ بھگت کی اور بڑی دعوت کے بندوبست کے احکامات دیے۔ دوسری طرف اپنے بھائی محمد سعید خان کو جنرل رابرٹ سیل اور لارڈ آکلینڈ کی طرف کہلوا بھیجا کہ 'امیر دوست کو گرفتار کرنا ہے تو وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ میرے قلعے میں موجود ہے، آپ کے دیے گئے اشتہار کے مطابق جو اس کو پکڑوائے گا اس کو 2 لاکھ دیے جائیں گے تو یہ 2 لاکھ کی رقم مجھے عنایت کی جائے'۔ انگریز فوج کی 4 پلٹنوں نے قلعے کو گھیرے میں لے لیا۔ دوست محمد جیسے کھانا کھانے کے لیے بیٹھا تو اسے پتا چلا کہ قلعے کو گھیر لیا گیا ہے۔ اس نے عبدالسبحان کو ایک ہی تلوار کے وار سے 2 حصوں میں چیر دیا۔ اس کے خاندان کے 45 چھوٹے بڑے، بچوں اور عورتوں کو وہیں پر کاٹ دیا گیا۔ سعید خان اس لیے بچ گیا کہ وہ انگریز لشکر کے ساتھ تھا۔ اتنے سخت گھیرے میں سے بھی وہ نکل گیا۔ ہمارے مصنف تحریر کرتے ہیں، 'امیر دوست جب گھیرا توڑ کر نکلا تو ہمارے سارے لشکر کو جیسے سانپ سونگھ گیا، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ ہم نے رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا اور اتفاق یہ ہوا کہ اسی رات اچانک میر مسجدی ایک ہزار جوانوں کے ساتھ ہمارے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور جھاڑو پھیر کر چلا گیا۔'
نومبر 1840ء میں فرنگیوں اور امیر دوست میں جو شدید جھڑپیں ہوئیں، ان میں سے ایک میں کیپٹن فریزر کا بازو تلوار سے کٹا، کرسٹن کے سر کو سردار کے بیٹے علی شیر خان نے دھڑ سے الگ کردیا، ڈاکٹر میکڈیئر کو ایک سپاہی پیر بخش نے تلوار کے وار سے بچالیا۔ جس کے بدلے میں بعدازاں پیر بخش کو 20 ہزار روپے کا بڑا انعام بھی ملا۔ فرنگیوں کے لیے حالات پریشان کن تھے۔ دوسری طرف پیسے دوست محمد کی زمین کو روز بروز مختصر کر رہے تھے۔ جنرل سیل نے اس صورتحال میں پروان سے فوج بلانے کو بہتر سمجھا اور واپس چاریکار میں آکر تھکان دُور کی۔ پھر اچانک امیر دوست محمد کے حملے بند ہوگئے اور خاموشی چھا گئی۔
ہمارے مصنف کے پاس یہ اُڑتی اُڑتی خبریں پہنچیں کہ جنرل میکناٹن نے دوست محمد خان کو صلح کا پیغام بھیجا ہے اس لیے وہ حملے نہیں کر رہا۔ ہمیں نہیں پتا کہ وہاں کیا ہوا؟ مگر ہم اگر تجزیہ کریں تو ایسی زمین پر کوئی بھی انسان زیادہ وقت تک نہیں لڑسکتا جہاں وہ لوگ ہی دشمن بن جائیں جن کو اپنا سمجھ کر وہ دشمنوں سے لڑ رہا ہو۔ دشمنی برداشت کی جاسکتی ہے مگر دھوکا اور فریب آپ کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ہم کیسے بھی ہوں، مگر ہوتے تو گوشت و ہڈیوں سے بنے انسان ہی ہیں ناں۔ پتھر تو نہیں ہیں جن میں درد، دھوکے اور خوشی کی کیفیتیں نہ پنپیں۔ شاید امیر دوست محمد خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ ذہنی طور پر تھک چکا تھا۔ جسمانی تھکن آرام کرنے سے اُتر جاتی ہے مگر روح کی تھکن کی جڑیں بڑی گہری اور دُور تک جاتی ہیں۔ اگر آپ امیر دوست کی زندگی کی پروفائل دیکھیں گے تو پائیں گے کہ جب جنگ ختم ہونے کے بعد اسے افغانستان جانے کی اجازت ملی تو وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ یہ وہ روح کی تھکن تھی جو سانس کی ڈوری تک ساتھ چلتی ہے۔
صبح کا وقت تھا، کابل کے آسمان پر ابھی سورج نہیں اُگا تھا، ٹھنڈ کچھ زیادہ تھی، بالاحصار کے قلعے سے نیچے کابل کا شہر دھند میں لپٹا تھا۔ جنرل میکناٹن اپنے گھوڑے پر یا تو تفریح کر رہا تھا یا شاید کسی کا انتظار۔ اسی وقت دوست محمد کے ایک ساتھی نے آکر اطلاع دی کہ دوست محمد خان آیا ہے اور جب دوست محمد خان آیا تو اس نے اپنی تلوار جنرل میکناٹن کو سونپ دی۔ جنرل میکناٹن نے دوست محمد کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بیٹے 'افضل خان' کو جنگ سے روک دے۔ اس حوالے سے محمد اسماعیل ریحان لکھتے ہیں، ’دوست محمد خان نے ایک تحریر لکھی اور قاصد کو اس تحریر کے ساتھ اپنا چاقو اور چشمہ بھی روانہ کیا۔ افضل خان تحریر ملتے ہی حاضر ہوگیا۔ انگریزوں نے دوست محمد کے 149 مرد و زن پر مشتمل پورے خاندان کو آزاد کردیا'۔
ہمارے مصنف بھی امیر دوست محمد خان کے ساتھ لدھیانہ جا رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’جب امیر دوست کا خاندان آزاد ہوا تو یہ فیصلہ ہوا کہ امیر دوست اپنے خاندان کے ساتھ لدھیانہ میں رہے گا۔ جنرل نکسن کی نگرانی میں گورا کلارتھ کی پلٹن، 30 نمبر پلٹن، ایک رسالہ ترک سواروں کا اور ایک ہارنس ہندی توپ خانہ، نواب امیر کے ساتھ اعزاز دینے کے لیے جائے گا جبکہ امیر دوست کے خاندان کے خرچے کے لیے کمپنی سرکار سالانہ 3 لاکھ روپے دے گی۔ لارڈ صاحب نے جب نواب کو شاہ شجاع سے ملنے کا کہا تو نواب امیر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ، وہ زندگی میں اس انسان کا چہرہ کبھی نہیں دیکھنا چاہے گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے‘۔
اس طرح 12 نومبر 1840ء بروز جمعرات یہ قافلہ کابل سے روانہ ہوا اور جلال آباد پہنچا۔ خیبر لک پار کرتے ہوئے مقررہ ٹیکس ادا کیا گیا اور جمرود پھر پشاور پہنچے۔ محترم سید فدا حسین بخاری لکھتے ہیں، 'پشاور بڑی آبادی والا شہر ہے، ہندوستانی اور امیر آدمی یہاں رہتے ہیں۔ ایک شاہی گھر اور 4 بڑے بازار وہاں کے حاکم ’اونتویل‘ صاحب نے تعمیر کروائے ہیں۔ ہم پھر راولپنڈی پہنچے جس کا سردار دھان سنگھ ہے جس کے پاس 10 ہزار سواروں کی فوج ہے‘۔
یہ قافلہ، اٹک، جہلم، روہتاس قلعے اور کانسور سے ہوتا ہوا فیروزپور پہنچا۔ کچھ دیر آرام کرکے پھر لدھیانہ پہنچ گیا، وہاں امیر دوست کو شاہی رہائش دی گئی اور کمپنی بہادر کی ساری فوج جو اس فاقلے کے ساتھ تھی وہ احکامات کے مطابق کرنال کی طرف روانہ ہوئی اور کچھ دنوں کے بعد کرنال پہنچ گئی۔ ہمارے مصنف لکھتے ہیں، 'عاجز وہاں سے اجازت لے کر شاہ جہان آباد آیا۔ 60 ہزار لوگوں کا لشکر تھا جن میں سے فقط 7 ہزار لوگ واپس لوٹ سکے جبکہ باقی وہیں دفن ہوئے'۔
ہم اپنے مصنف کو یہاں فیروز آباد میں آرام کرنے دیتے ہیں۔ ہم اس کے لوٹنے کا انتظار کرتے ہیں۔ چونکہ گورے کی اس ناکام جنگ کا اختتام 12 اکتوبر 1842ء کو ہوا تھا اس لیے ہمیں ابھی تقریباً مزید 2 برس افغانستان کے شہروں اور وادیوں میں رہنا ہے۔ امیر دوست کے جانے کے بعد افغانستان کے شہروں کی گلیوں میں بہت ساری وحشتوں نے جنم لیا۔
ہم جلد ملتے ہیں کابل کی ان گلیوں میں۔
حوالہ جات:
- ’تاریخ سکھر‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی۔ 2005۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’تاریخ افغانستان و سندھ‘۔ مرتب: میر اشرف علی گلشن آبادی۔1845۔ بمبئی
۔ ’تاریخ افغانستان‘ (جلد اول)۔ مولانا محمد اسماعیل ریحان۔ المناھل پبلشر، کراچی
Army of The Indus: In the expedition to Afghanistan. By: Major W.Hough. 1841, London
The Lure of The Indus. By: L.G Sir George MacMunn. 1933, London
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔