خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے کا واقعہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی کو یوم آزادی کے موقع پر لاہور کے اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر اور ان کے ساتھیوں پر تشدد اور ہراساں کرنے کے واقعے کی رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
پنجاب سیف سٹیز اتھارٹیز کے ہیڈ واکرٹرز میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی جنہوں نے اب تک ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا۔
وزیر اعلیٰ نے کل واقعے سے متعلق خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے جبکہ ان کی ہدایت پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جو واقعے میں پارکس اینڈ ہاٹری کلچر اتھارٹی کے کردار کی تحقیقات کرے گی اور اس سلسلے میں غفلت برتنے والوں کا تعین کر کے رپورٹ جمع کرائی جائے گی۔
وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کو 'ٹیسٹ کیس' قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاملے کو جلد از جلد منقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت متاثرین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائے گی اور واقعے میں ملوث افراد اور ذمے داران سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
عثمان بزدار نے حکام کو ہدایت کی کہ وہ جدید اور سائنسی طریقے سے واقعے کی تحقیقات کریں۔
دوران اجلاس آئی جی پولیس انعام غنی نے گرفتاریوں اور واقعے میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے کی جانے والی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔
اس سے قبل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعام غنی نے 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
آئی جی پولیس کے دفتر سے جاری حکم نامے کے مطابق ایڈیشنل آئی جی سیف سٹی اتھارٹی سردار علی خان کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں ڈی آئی جی انٹرنل اکاؤنٹبیلٹی بیورو پنجاب محمد یوسف ملک اور اے آئی جی لاجسٹک پنجاب اطہر اسمٰعیل امجد بھی شامل ہیں۔
حکم نامے میں کمیٹی کو واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر 22 اگست تک آئی جی پنجاب کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کو حکم نامے میں تین ٹی او آرز بیان کیے گئے ہیں، جن کے مطابق کمیٹی واقعے کا ہر پہلو سے تفصیلی جائزہ لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: یوم آزادی پر خاتون کو ہراساں کرنے والے سیکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ درج
کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ یوم آزادی کے موقع پر گریٹر اقبال پارک میں شہریوں کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر کتنے اہلکار سیکیورٹی پر تعینات تھے۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو پولیس کا کیا ردعمل تھا اور ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی وجوہات اور ذمہ داران کا تعین بھی کیا جائے گا۔
کمیٹی واقعے سے قبل، واقعے کے دوران اور بعد کے حالات کے حوالے سے سُستی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والے لاہور پولیس کے ذمہ داران کا تعین بھی کرے گی۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کسی بھی پولیس عہدیدار کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے علاوہ کوئی بھی ریکارڈ، شواہد یا گواہ طلب کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاہور: خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں کرنے کا واقعہ، وزیراعظم کا آئی جی پنجاب سے رابطہ
یاد رہے واقعہ 14 اگست کو اس وقت پیش آیا تھا جب خاتون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان کے قریب ویڈیو بنا رہی تھیں۔
خاتون کے مطابق انہیں لاہور گریٹر پارک میں سیکڑوں افراد نے ہراساں کیا، انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے بچنے کی بہت کوشش کی اور حالات کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ نے مینارِ پاکستان کے قریب واقع دروازہ کھول دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کو بتایا گیا تھا لیکن حملہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، لوگ مجھے دھکا دے رہے تھے اور انہوں نے اس دوران میرے کپڑے تک پھاڑ دیے، کئی لوگوں نے میری مدد کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بہت بڑا تھا۔
خاتون نے مزید بتایا کہ اس دوران ان کی انگوٹھی اور کان کی بالیاں بھی زبردستی لے لی گئیں جبکہ ان کے ساتھی سے موبائل فون، شناختی کارڈ اور 15 ہزار روپے بھی چھین لیے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: طالبات کو جنسی ہراساں کرنے والے استاد پر الزام ثابت
واقعہ کا مقدمہ خاتون کی مدعیت میں 17 اگست کو لاہور کے لاری اڈہ تھانے میں درج کیا گیا۔
مذکورہ واقعے کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے (عورت پر حملے یا مجرمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال اور کپڑے پھاڑنا)، 382 (قتل کی تیاری کے ساتھ چوری کرنا، لوٹ کی نیت سے نقصان پہنچانا)، 147 (فسادات) اور 149 کے تحت درج کیا گیا ہے۔
واقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس بھی لیا تھا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب سے رابطہ کیا تھا۔
وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے سمندرپار پاکستانی زلفی بخاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ ‘وزیراعظم عمران ان نے لاہور میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والے معاملے پر آئی جی پنجاب سے بات کی ہے’۔