دنیا

ملائیشیا کے وزیراعظم نے 17 ماہ بعد عہدہ چھوڑ دیا

کابینہ کے اجلاس کے بعد 74 سالہ محی الدین یٰسین ملائیشیا کے بادشاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔

ملائیشیا کے وزیراعظم اور ان کی حکومت نے صرف 17 ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ سے ملک میں تازہ سیاسی انتشار دیکھا جارہا ہے، جو سنگین کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ہی لڑ رہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق محی الدین یٰسین کی انتظامیہ کا ہنگامہ خیز دور اس وقت ختم ہوا جب اتحادیوں نے حمایت واپس لے لی اور ان کے اقتدار میں رہنے کی آخری کوشش ناکام ہو گئی اور وہ ملائیشیا کی تاریخ میں سب سے کم مدت کے لیے بننے والے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد 74 سالہ محی الدین یٰسین ملائیشیا کے بادشاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کے لیے ان کے محل کی طرف روانہ ہوئے۔

وزیر سائنس خیری جمال الدین نے انسٹاگرام پر تصدیق کی کہ پوری کابینہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

مزید پڑھیں: ملائیشیا میں کورونا کے بہانے ایمرجنسی نافذ، پارلیمنٹ معطل

انہوں نے لکھا کہ 'ایک مرتبہ پھر قوم کی خدمت کرنے کا موقع دینے کے لیے آپ سب کا بہت شکریہ'۔

وزیراعظم کے دفتر کے ایک وزیر محمد ردزوان یوسف نے اے ایف پی کو تصدیق کی کہ محی الدین یٰسین مستعفی ہوگئے اور ان کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔

محی الدین کے بعد کوئی دوسرا وزیر اعظم نہیں ہے تاہم انتخابات کا امکان نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ ملک کو کووڈ 19 کی بدترین لہر اور معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔

تاہم ایک نیا اتحاد بننے سے قبل پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے سیاسی ہارس ٹریڈنگ متوقع ہے۔

سنگاپور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے تجزیہ کار اوہ ای سن نے کہا کہ 'ان کی جگہ کوئی بھی ہوسکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا: اپوزیشن لیڈر انور ابراہیم کا حکومت بنانے کیلئے تعداد پوری ہونے کا دعویٰ

ملائیشیا کا آئینی بادشاہ باضابطہ طور پر وزیر اعظم کا تقرر کرتا ہے اور یہ اس پر منحصر ہوگا کہ وہ اس بات کا اندازہ کرے کہ ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے کس کو زیادہ حمایت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ محی الدین گزشتہ سال مارچ میں انتخابات کے بغیر ایک اسکینڈل میں مبتلا اتحاد کے سربراہ کے طور پر اقتدار میں آئے تھے، ان سے قبل ملک میں اصلاح پسند حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جو دو سال سے اقتدار سنبھالے ہوئے تھی۔

تاہم ان کی حکومت کو پہلے دن سے ہی ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا تھا، پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت شکوک و شبہات میں تھی اور اس کی قانونی حیثیت پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے اور انہیں اپوزیشن کے سربراہ انور ابراہیم کی جانب سے مسلسل چیلنجز کا سامنا تھا۔

وزیر اعظم نے یکساں تعلیمی نصاب کا اجرا کردیا

کابل ایئرپورٹ: طیارے سے لٹک کر افغانستان چھوڑنے والے شہریوں سمیت 5 ہلاک

طالبان بنیادی حقوق کا احترام کریں گے تو امریکا انہیں تسلیم کرلے گا، انٹونی بلنکن