دنیا

افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل

جنگجوؤں کو کابل میں داخل ہونے کا حکم، شہریوں کی زندگی خطرے میں نہیں، کسی کی جان،مال،عزت کونقصان نہیں پہنچایاجائے گا، طالبان ترجمان

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھیوں کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد طالبان قیادت نے اپنے جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جبکہ افغان اور غیر ملکی شہری انخلا میں مصروف ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطےکی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کابل میں موجود طالبان کے دو سینئر کمانڈروں نے بتایا کہ افغان صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کرلیا گیا ہے تاہم افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی۔

غیرملکی خبر ایجنسی اے پی کو دو ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اشرف غنی جا چکے ہیں۔

افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے آن لائن ویڈیو بیان میں اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کی تصدیق کردی۔

انہوں نے کہا کہ ‘وہ مشکل وقت میں افغانستان چھوڑ گئے ہیں، اللہ ان سے پوچھے گا’۔

آج ہونے والی اہم پیش رفت



خبرایجنسی رائٹرز نے وزارت داخلہ کے سینئر ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ‘اشرف غنی دارالحکومت کابل سے تاجکستان جا چکے ہیں’ تاہم ان خبروں کی تصدیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں یا نہیں۔

عبداللہ عبداللہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں افغان سیکیورٹی فورسز سے اپیل کی کہ وہ ملک میں امن برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے طالبان سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں یا ایسا عمل نہ کریں جس سے کابل میں افراتفری ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی مشکل وقت میں ملک کو چھوڑ کر گئے ہیں، جس پر انہیں تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

افغان صدر کے دفتر نے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ‘سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اشرف غنی کی نقل و حرکت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا’۔

دوسری جانب افغان رہنماؤں نے طالبان سے انتقال اقتدار کے حوالے سے مذاکرات کے لیے رابطہ کونسل تشکیل دے دی۔

سابق صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں کہا کہ کونسل کی قیادت قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کریں گے، جس میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار اور حامد کرزئی خود شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد بے یقینی کو ختم کرنے، عوام کی مشکلات دور کرنے اور پرامن انتقال اقتدار ہے۔

کابل ایئرپورٹ میں سیکیورٹی بدتر ہو رہی ہے، امریکی سفارت خانے کا دعویٰ

کابل میں امریکی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ کابل ایئرپورٹ میں سیکیورٹی کی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے جہاں فائرنگ کی اطلاعات ہیں جبکہ امریکی فوجی اپنے عہدیداروں کےانخلا میں مصروف ہیں۔

امریکی سفارت خانے سیکیورٹی الرٹ میں کہا کہ ایئرپورٹ میں فائرنگ کی رپورٹس ہیں اس لیے ہم امریکا کے شہریوں کو محفوظ مقامات پر رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔

کابل کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ذرائع نے کابل ایئرپورٹ میں فائرنگ کی تصدیق نہیں کی۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے اس سے قبل کہا تھا کہ سفارت خانے کا عملہ کمپاؤنڈ چھوڑ کر ایئرپورٹ کی طرف جارہا ہے کیونکہ طالبان کابل میں داخل ہوگئے ہیں۔

سفارت کاروں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایئرپورٹ منتقل کیا جارہا تھا جہاں امریکی فوجی اپنے شہریوں، مقامی اتحادیوں اور دیگر غیرملکیوں کی سیکیورٹی انجام دے رہے تھے۔

‘عبوری حکومت کا امکان نہیں’

قبل ازیں غیرملکی خبر ایجنسیوں نے رپورٹ کیا تھا کہ طالبان جنگجو کابل کے اطراف میں پہنچ گئے ہیں اور پریشان افغان حکومت ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوشش کررہی ہے لیکن اس کے پاس محدود اختیار باقی رہ گیا ہے۔

دوسری جانب شہری اس خوف کے پیشِ نظر کہ طالبان دوبارہ جابرانہ نظام مسلط کردیں گے جس میں خواتین کے حقوق سلب ہوں گے، ملک چھوڑنے کی کوششیں کررہےہیں اور مشینوں سے رقم نکالنے کے لیے طویل قطاریں لگ گئیں۔

طالبان کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کے منتظر ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دارالحکومت کابل پر بزور طاقت قبضہ نہیں کریں گے۔

ایک آن لائن بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل کے دروازے پار کر کے طاقت کے ذریعے شہر کا کنٹرول نہ حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل

ان کا کہنا تھا کہ 'کابل کے شہریوں کی زندگی، املاک، عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر اقتدار کی محفوظ منتقلی کا عمل یقینی بنانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں'۔

طالبان ترجمان نے قطر نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے وہ کابل شہر کی پر امن منتقلی کا انتظار کررہے ہیں تاہم انہوں نے جنگجوؤں اور حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔

البتہ معاہدے کی تفصیلات کے اصرار پر سہیل شاہین نے اعتراف کیا کہ وہ مرکزی حکومت کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ایک طالبان عہدیدار نے خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گروپ اقتدار کے حصول میں کوئی جانی نقصان نہیں چاہتا لیکن اس نے جنگ بندی کا اعلان بھی نہیں کیا ہے۔

دوسری جانب طالبان مذاکرات کار اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے بات چیت کرنے افغان صدارتی محل روانہ ہوئے، حکام کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ اقتدار کی منتقلی کب ہوگی۔

دوسری جانب ایک ویڈیو بیان میں افغان قائم مقام وزیر داخلہ نے کہا کہ کابل پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور اقتدار کی منتقلی پر امن ماحول میں ہوگی۔

طالبان کا طور خم بارڈر پر بھی قبضہ

قبل ازیں اتوار کے روز ہی طالبان نے افغان حکام کے زیر انتظام آخری زمینی گزرگاہ طورخم بارڈر پر بھی قبضہ کرلیا جس کے بعد افغانستان سے باہر جانے کا واحد ذریعہ کابل ایئرپورٹ ہی بچا ہے جو اشرف غنی حکومت کے زیر انتظام ہے۔

امریکی صدر کی مزید ایک ہزار فوجی بھیجنے کی منظوری

امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں موجود امریکیوں کے محفوظ انخلا کے لیے مزید ایک ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کی اجازت دے دی جس کے بعد محفوظ انخلا کے لیے مقرر کیے امریکی فوجیوں کی تعداد 5 ہزار ہوجائے گی۔

خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اہلکار 2 دہائی سے جاری جنگ کے دوران غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے انخلا میں بھی مدد کریں گے۔

آخری لمحات میں ہزاروں امریکی فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی افغانستان کی گھمبیر سیکیورٹی صورتحال ظاہر کررہے ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی ایک امریکی خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کابل پر قبضے میں 3 ماہ کا عرصے لگ سکتا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ امریکی ٹیم کے اہم ترین اراکین کابل ایئرپورٹس سے کام کررہے ہیں جبکہ نیٹو حکام کا کہنا تھا کہ یورپی عملے کے اراکین کو دارالحکومت میں نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں امریکی شہریوں کے انخلا کے لیے ایک ہزار امریکی فوجی رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم حکام کو یہ تعداد ناکافی معلوم ہوئی جس کے بعد مزید 3 ہزار فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور اتوار کے روز اس میں ایک ہزار اہلکاروں کا اضافہ کرنے کا اعلان سامنے آیا۔

طالبان کا بغیر مزاحمت جلال آباد پر قبضہ

افغان صدارتی محل کی ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ کابل کے اطراف میں متعدد مقامات پر فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں لیکن سیکیورٹی فورسز بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ شہر کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔

اس سے قبل طالبان نے مزاحمت اور لڑائی کے بغیر افغانستان کےشہر جلال آباد پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد افغان حکومت کا کنٹرول دارالحکومت کابل تک ہی محدود ہوگیا تھا۔

خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جلال آباد کے سقوط نے طالبان کو اس سڑک کا کنٹرول بھی دے دیا جو پاکستان کے شہر پشاور کو افغانستان سے ملاتی ہے اور ملک کی اہم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کو غلطی قرار دے دیا

اس سے قبل طالبان نے ملک کے چوتھے بڑے شہر مزار شریف پر بھی قبضہ کرلیا تھا جس کا دفاع 2 سابق وار لارڈز نے کرنے کا وعدہ کیا تھا، یوں طالبان کو افغانستان کے پورے شمالی حصے پر قبضہ حاصل ہوگیا۔

جلال آباد میں ایک افغان عہدیدار نے بتایا کہ شہر میں کوئی لڑائی نہیں ہورہی کیوں کہ گورنر نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انہیں راستہ دینا شہریوں کی زندگی بچانے کا واحد راستہ تھا۔

ایک دوسرے سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ طالبان نے حکومتی عہدیداران اور سیکیورٹی فورسز کو جلال آباد سے نکلنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

دوسری جانب ہفتہ کو طالبان جنگجو مزار شریف میں بھی مزاحمت کے بغیر داخل ہوگئے کیوں کہ سیکیورٹی فورسز شاہراہ سے پڑوسی ملک ازبکستان کی جانب بھاگ گئیں۔

یہ بھی پڑھیں:ملکی سیکیورٹی اور مسلح افواج کی محازوں پر واپسی اولین ترجیح ہے، اشرف غنی

ایسے میں حکام نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ افغان صدر کے 2 اتحادی وار لارڈز عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم ازبکستان فرار ہوگئے۔

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غیر مصدقہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان فوج کی گاڑیاں اور یونیفارم میں ملبوس آدمی افغان قصبے حیرتان اور ازبکستان کے درمیان لوہے کے پل پر جمع ہورہے ہیں۔

دوسری جانب عسکریت پسندوں نے اتوار کی صبح تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں انہیں صوبہ ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد میں گورنر کے دفتر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ادھر کابل میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو حکم دیا جاچکا ہے کہ وہ حساس مواد کو جلانا شروع کردیں جبکہ برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین سمیت یورپی ممالک اپنے متعلقہ سفارت خانوں سے اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

کابل کے باشندوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد بھی خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔

تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔

چند روز قبل ایک امریکی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ طالبان 90 روز میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔

طالبان کا افغان حکومت اور اتحادی افواج کے ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان

طالبان کی قیادت میں کون لوگ شامل ہیں؟

امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل