پاکستان

طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان قیادت پر زور دے رہے ہیں، مشیر قومی سلامتی

پاکستان نے ماضی میں افغان امن عمل کے لیے اپنی طرف سے تمام کوششیں کی ہیں، معید یوسف

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان افغان قیادت پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کرکے فوری طور پر سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں تاکہ مزید کشیدگی سے بچا جائے۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی نے افغان قیادت سے اپیل کی اور زور دیا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں ایک شہر کے بعد دوسرے شہر پر قبضے سے امن عمل کو تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر کی فون کال کا انتظار نہیں کر رہا، وزیراعظم عمران خان

معید یوسف نے کہا کہ ‘یقین کیجیے کہ اگر وہ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو وہ کوئی حل نکال پائیں گے اور افغان جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں اس کا احترام ہوگا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘تاریخ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھی گی اگر ہم افغانستان کے بحران پر ایک سیاسی حل کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار نہیں لاتے’۔

پاکستان کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں افغان امن عمل کے لیے اپنی طرف سے تمام کوششیں کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ‘ہم صرف یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ پاکستان امن کے لیے ضامن نہیں ہوسکتا لیکن ہم سہولت کار ہوسکتے ہیں، ہم جتنا ہوسکے سہولت دیں گے’۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ‘افغان سیاسی طور پر جو بھی فیصلہ کریں، سب کو اس کا احترام کرنے کی ضرورت ہے’۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلسل اس تاثر کو مسترد کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں کسی فریق کی جانب داری کی جارہی ہے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے رواں برس جون میں اسلام آباد میں پاک-افغان دوطرفہ مذاکرات کے افتتاحی سیشن میں کہا تھا کہ پاکستان نے واضح فیصلہ کرلیا ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات پر مداخلت نہیں کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے 11 اگست کو ایک انٹرویو میں امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا ہمیں افغانستان میں ان کی 20 سالہ جنگ میں پھیلائے گئے گند کو صاف کرنے کے لیے کارآمد تصور کرتا ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے دہرایا تھا کہ اسلام آباد، افغانستان میں کسی فریق کی طرف داری نہیں کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں درخواست کے باوجود نہیں بلایا گیا، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں امریکا نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب بھارت ان کا اسٹریٹجک پارٹنر ہوگا اور میں سمجھتا ہوں اسی لیے انہوں نے اب پاکستان کے سے مختلف طریقے سے سلوک کر رہا ہے’۔

عمران خان نے کہا تھا کہ اس صورت حال میں افغانستان میں سیاسی حل مشکل نظر آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان رہنماؤں کو جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو سیاسی حل نکالنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ طالبان نے بتایا کہ ‘جب تک اشرف غنی موجود ہیں، اس وقت تک ہم افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے’۔

افغانستان میں پھنسے صحافیوں کی مدد کیلئے پاکستان کی ویزا پالیسی میں نرمی

رئیل می اپنی پہلا لیپ ٹاپ 18 اگست کو متعارف کرائے گا

ریاست مخالف سوشل میڈیا رجحانات پر حکومتی رپورٹ گمراہ کن ہے، مسلم لیگ (ن)