روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 10 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
کراچی: امریکی ڈالر 10 ماہ کی بلند ترین سطح عبور کرتے ہوئے 164 روپے تک پہنچ گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدی بل سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر رواں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے۔
مالی سال 2021 کی دوسری ششماہی میں ہر ماہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا رہا لیکن پہلی ششماہی میں ملنے والی کامیابیوں کی بدولت یہ 11 ماہ تک سرپلس رہا اور جون کے مہینے میں پورے سال کا سرپلس جی ڈی پی کے 0.6 فیصد خسارے تک پہنچ گیا۔
یہ بھی پڑھیں:روپے کے مقابلے میں ڈالر 9 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
گزشتہ برس 6 اکتوبر کو بھی ڈالر کی قیمت 164 روپے تھی تاہم اگست میں اب تک کی بلند ترین سطح 168 روپے کی سطح چھونے کے بعد سے اس میں کمی جاری تھی اور گزشتہ روز بھی ڈالر 164 روپے ایک پیسے پر بند ہوا۔
مئی 2021 سے لے کر اب تک مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 7.15 فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے جس سے نہ صرف درآمدی اشیا کی لاگت بڑھی بلکہ ایکسچینج کے استحکام کے حوالے سے بھی غیر یقینی نے جنم لیا۔
قبل ازیں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی بات ہہے کیوں کہ مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
مزید پڑھیں: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 9 ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی
ان کا کہنا تھا کہ اگر بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ایکسچینج ریٹ نہیں بڑھا تو اس کا مطلب ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو برقرار رکھا جارہا ہے جو مصنوعی اور ملکی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔
نئے مالی سال کے آغاز کے بعد سے شرح تبادلہ متزلزل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی 3.94 فیصد گر چکی ہے۔
پالیسی سازوں کی جانب سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے 2-3 فیصد کے اعلان پر مارکیٹ نے رد عمل ظاہر کیا اور درآمد کنندگان زیادہ رقم کے حصول کے لیے پہنچ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف سے 23 اگست کو 2.77 ارب ڈالر موصول ہوں گے، وزیرخزانہ
تاہم اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ بلند معاشی ترقی کے لیے زیادہ درآمد درکار ہے۔
خوش قسمتی سے حکومت کو مالی سال 2021 میں 29 ارب 40 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر حاصل ہوئی تھیں جبکہ جولائی میں بھی 2 ارب 70 کروڑ ڈالر موصول ہوئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے مالی سال میں بھی ملک کی پوری برآمدات سے بھی زیادہ مدد ملے گی۔
دوسری جانب اگرچہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر حالت میں ہیں لیکن یہ اسے تقریباً 18 ارب ڈالر رکھنے کے لیے قرض لینے پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔