پاکستان

کراچی: اسکول ٹیچر پر تیزاب سے حملے کے ملزم کو عمر قید کی سزا

متاثرہ شخص کے علاج کے اخراجات حکومت سندھ کے خزانے سے ادا کیے جائیں اور مالی معاوضہ دیا جائے، جج انسداد دہشت گردی عدالت

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے شادی کے معاملے پر اسکول ٹیچر پر تیزاب پھینکنے والے ملزم کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محمد سہیل کو احمر اقبال کی جانب سے ان کی ساتھی اسریٰ سے شادی سے دستبردار ہونے سے انکار کے بعد ان کے چہرے اور آنکھیں جلانے کا مجرم قرار دیا گیا، جن کے ساتھ مجرم بھی شادی کرنا چاہتا تھا۔

بدھ کو سینٹرل جیل کے جودیشل کمپلیکس میں انسداد دہشت گردی عدالت نمبر7 کے جج نے سماعت کے بعد مقدمے کا فیصلہ سنایا۔

جج نےتبصرہ کیا کہ احمر اقبال اپنی دونوں آنکھیں کھو چکا ہے اور تیزاب کے حملے میں نابینا ہوگیا ہے، لہٰذا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرہ شخص کے حقوق کی خلاف ورزی پر اسے علاج کی سہولیات اور معاوضہ فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: تیزاب گردی اور قتل کے مجرم کو 40 سال قید

جج کا مزید کہنا تھا کہ ازالے میں متاثرہ فرد کا علاج اور مالی معاوضہ شامل کیا جاسکتا ہے۔

جج نے کہا کہ تیزاب گردی کی زد میں آنے والے کئی افراد مشکل سرجریز کے عمل سے گزرتے ہیں جو بہت مہنگی ہوتی ہیں اس کے لیے پاکستان اور بیرون ملک ماہرین اور سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے۔

متاثرہ شخص کی سماجی اور مالی حالت دیکھتے ہوئے جج نے کہا کہ نجی ہسپتال میں اس کے علاج کے اخراجات، ملک میں ہوں یا بیرون ملک حکومت سندھ کے خزانے سے ادا ہونے چاہیئیں۔

جج نے سندھ کے چیف سیکریٹری کو حکم دیا کہ وہ متاثرہ شخص کے مفت علاج کے حوالے سے اس کی ذمہ داری اٹھائیں، انہیں مکمل صحت یابی اور جب تک خود کمانے کے قابل نہیں ہوتے اس وقت تک بنیادی ضروریات فراہم کریں، عدالت نے اپنے دفتر کو حکم کے تعمیل کے لیے چیف سیکریٹری کو حکم نامے کی ایک کاپی بھیجنے کی ہدایت کی۔

پروسیکیوشن کے مطابق سہیل اور اسریٰ شاہ فیصل کالونی کے ایک ہی اسکول میں پڑھاتے تھے، جہاں ان میں تعلقات استوار ہوئے، جس کے بعد سہیل نے اسریٰ سے شادی کے لیے رشتہ بھیجا، جس کو انہوں نے اور ان کے والدین نے ماننے سے انکار کر دیا۔

سرکاری پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ 29 اپریل 2016 کو سہیل نے احمر کو تحفہ دینے کا کہہ کر ان کو گھر کے باہر بلایا اور ان کے پہنچنے پر سہیل نے اپنے ہاتھ میں موجود تیزاب بھرا پلاسٹک کا کپ احمر کے چہرے پر پھینکا اور فرار ہوگیا۔

انہیں ابتدائی علاج کے لیے ہل پارک جنرل ہسپتال لے جایا گیا بعد ازاں ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کے برنس وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: تیزاب سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے، چیف جسٹس

پروسیکیوشن کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص مکمل طور پر نابینا ہوچکا ہے جبکہ ان کا چہرہ، آنکھیں، گردن اور ہاتھ جل چکے ہیں اور عدالت سے استدعا کی کہ مجرم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

دوسری جانب وکیل صفائی نے استغاثہ کی جانب سے مجرم پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مؤکل بے قصور ہے، لیکن پولیس نے انہیں اس کیس میں شامل کیا۔

واقعے کا مقدمہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 336 بی (کسی چیز سے چوٹ پہنچانا) اورانسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کےسیکشن 7 (دہشت گردانہ عمل) کے تحت شارع فیصل تھانے میں متاثرہ شخص کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

غزنی شہر پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان افغان دارالحکومت کے قریب پہنچ گئے

فلم میں شاہ رخ کا بیٹا بننے والی لڑکی معروف اسٹار بن گئیں

اولمپیئن ارشد ندیم کا وطن واپس پہنچنے پر شاندار استقبال