قومی پرچم کی غلط اشکال اور رنگوں میں چھپائی 'بے حرمتی تصور کی جاسکتی ہے'
لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ قومی پرچم کی بگڑی ہوئی تصاویر، بدنما کارٹونز پرحقیقی رنگ کے بجائے مختلف رنگوں میں چھاپنا اور کپڑوں پر اس کی اہانت آمیز چھپائی سے قومی وقار مجروح ہوتا ہے اور یہ اسے بے حرمتی تصور کیا جاسکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ‘ہمارا پرچم محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہے، سفید اور سبز حصہ امن اور خوشحالی ظاہر کرتا ہے، ہلال ترقی اور پانچ کرنوں والا ستارہ روشنی اور علم کی علامت ہے جو پانچ پاک ہستیوں (پنجتن پاک) کو ظاہر کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ پرچم میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا نمایاں مقام ہے جسے سفید حصے سے تسلیم کیا گیا ہے۔
جج نے مشاہدہ کیا کہ قومی پرچم کے پروٹوکول کے مطابق وہ زمین، جوتے یا پاؤں یا کسی ناپاک چیز سے چھونا نہیں چاہیے، اسے اندھیرے میں نہیں لہرانا چاہیے اور نہ ہی اس پر کوئی نشان ہونے چاہیے (بشمول الفاظ، ہندسے یا تصاویر) اور جب لہرایا جائے یا سرنگوں کیا جائے تو اسے باوردی اہلکاروں کی جانب سے سلامی دی جانی چاہیے جبکہ دیگر اس موقع پر متوجہ کھڑے ہوں۔
مزید پڑھیں:جب قومی پرچم کو اونچا کرنے کیلئے لڑکیوں نے پراندے دیے
ان کا کہنا ہے کہ قومی پرچم کو الٹا یا ایسے حالت میں لہرانا یا آویزاں نہیں کرنا چاہیے کہ ہلاک اور ستارے کا رخ بائیں سمت ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں اس کے گندے ہونے کا امکان ہو وہاں بھی پرچم آویزاں نہیں کرنا چاہیے۔
ایک وکیل کی دائر درخواست خارج کرتے ہوئے عدالتی حکم میں انہوں نے کہا کہ جھنڈے کو آگ لگائی جائے، نہ اسے پامال کیا جائے جبکہ اسے دفن یا قبر میں بھی نہیں اتارنا چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعہ 123 ب میں قومی پرچم کی بے حرمتی کو 3 سال قید کا قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ شکیلہ رانا کی دائر کردہ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ حکومتی اداروں کو حکم دیا جائے کہ قومی پرچم کے اصل رنگوں کے علاوہ دیگر رنگوں میں چھپائی ممنوع قرار دیں۔
وکیل نے پرچم کی مختلف تصاویر، کارٹونز اور پاجاموں پر چھپائی پر بھی اعتراض کیا تھا۔