کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
ایریزونا یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے معمولی یا معتدل حد تک بیمار ہونے والے افراد کی اکثریت کو بھی 30 دن یا اس سے زیادہ وقت تک علامات کے تسلسل کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق معمولی حد تک بیمار ہونے والے 67 فیصد مریضوں کو صحتیابی کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا ہوا، یعنی ان کی علامات 30 دن کے بعد بھی برقرار رہیں۔
محققین نے بتایا کہ یہ ان لوگوں کے لیے آنکھیں کھول دینے والے نتائج ہیں جو اب تک ویکسین استعمال نہیں کرسکے، اگر ان کو کووڈ کا سامنا ہوتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس وقت لانگ کووڈ کے حوالے سے زیادہ تر تحقیقی کام ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں پر ہوا ہے جن کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں ایسے افراد پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جن کی بیماری کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ان کو ہسپتال داخل ہونا پڑتا۔
اس تحقیق میں مئی 2020 سے اس امریکی ریاست کے کووڈ کے مریضوں یا اس سے محفوظ رہنے والے افراد کا جائزہ لیا جارہا تھا، جس کے لیے آن لائن سرویز سے مدد لی گئی۔
کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے 68.7 فیصد مریضوں کو بیماری کے 30 دن بعد بھی کم از کم ایک علامت کا سامنا تھا، یہ شرح 60 دن بعد 77 فیصد تک پہنچ گئی۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد کو کووڈ کا سامنا ہوتا ہے، وہ کم تعلیم یافتہ، سیزنل الرجیز اور پہلے سے کسی بیماری جیسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔
لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد نے 30 دن بعد تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری، دماغی دھند، تناؤ، ذہنی بے چینی، سونگھنے یا چکھنے کی حسوں میں تبدیلی، جسم اور مسلز میں تکلیف، بے خوابی، سردرد، جوڑوں میں درد اور ناک بند رہنا 10 عام ترین علامات تھیں۔
علامات کی تعداد اور ان کی شدت کے ساتھ ساتھ بیماری کا دورانیہ کووڈ کے ہر مریض میں مختلف تھا۔
اوسطاً لانگ کووڈ کے مریضوں کو 3 علامات کا سامنا ہوا مگر کچھ افراد میں یہ تعداد 20 تک بھی دیکھی گئی۔