دنیا

افغانستان: طالبان کا نمروز میں پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ

عبدالرشید دوستم کی افغانستان واپسی، طالبان کی صوبے جوزجان میں کارروائی کے دوران 10 افغان فوجی، دوستم ملیشیا کا کمانڈر ہلاک ہوگیا۔

افغان طالبان نے پیش قدمی کرتے ہوئے صوبہ نمروز کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا جو کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر ان کا پہلا قبضہ ہے۔

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق نمروز کی صوبائی پولیس نے کہا کہ طالبان نے صوبائی دارالحکومت زرنج پر قبضہ کرلیا ہے جو کسی بھی صوبائی حکومت پر ان کا پہلا قبضہ ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کا ہلمند کے دارالحکومت کے بڑے حصے پر قبضہ

ترجمان پولیس نے سیکیورٹی خدشات کے باعث شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے پاس شہر پر قبضے کا موقع تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے انتظامات نہیں کیے گئےتھے۔

طالبان اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کئی اضلاع اور سرحدی علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں اور مغرب ہیرات اور جنوب میں قندھار تک صوبائی دارالحکومتوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

طالبان کی صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی

اس سے قبل رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان نے افغانستان میں اپنے تسلط کو سرحدی علاقوں میں بڑھاتے ہوئے دو صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی تیز کردی ہے اور اس دوران انہوں نے افغان فورسز جبکہ حکومت کی حمایت یافتہ ملیشیا کو بھی نشانہ بنایا۔

شمالی صوبے جوزجان میں طالبان کی تازہ کارروائیوں میں 10 افغان فوجی اور عبدالرشید دوستم ملیشیا گروپ سے تعلق رکھنے والا ایک کمانڈر مارا گیا۔

جوزجان کے نائب گورنر عبدالقادر مالیہ نے کہا کہ 'طالبان نے رواں ہفتے (صوبائی دارالحکومت) شبرغان کے مضافات میں پرتشدد حملے شروع کیے اور شدید جھڑپوں کے دوران حکومت کے حامی ملیشیا فورسز کا ایک کمانڈر جو دوستم کا وفادار تھا ہلاک ہوگیا'۔

طالبان، جو 2001 سے امریکی زیر قیادت بین الاقوامی افواج کے ہاتھوں اقتدار کے خاتمے کے بعد اپنی حکمرانی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں، نے امریکی حمایت یافتہ حکومت کو شکست دینے کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے کیونکہ 20 سال کی جنگ کے بعد غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہورہا ہے۔

ایک اور صوبائی کونسل کے رکن نے کہا کہ جوزجان کے 10 میں سے 9 اضلاع اب طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور شبرغان کو کنٹرول کرنے کے لیے مقابلہ جاری ہے۔

صبہ ہلمند کے جنوبی حصے میں شہری املاک کو پہنچنے والے نقصان نے انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ پر قابو پانے کے لیے ایک ہفتے تک جاری رہنے والی لڑائی میں کئی دکانوں کو آتشزدگی کے باعث نقصان پہنچا۔

اقوام متحدہ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ وہ اس شہر میں پھنسے ہزاروں لوگوں کی حفاظت کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہے۔

کابل میں موجود ایک سینئر مغربی سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ 'تشدد میں صرف اضافہ ہوا ہے اور لشکر گاہ میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کیونکہ علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے'۔

امدادی گروپ ایکشن اگینسٹ ہنگر کا لشکر گاہ دفتر جمعرات کو علاقے میں لڑائی کے دوران بم کا نشانہ بنا تھا۔

افغانستان میں ایکشن اگینسٹ ہنگرز (بھوک کے خلاف اقدام) کے کنٹری ڈائریکٹر مائیک بونکے نے کہا کہ 'شہری جنگ لڑنے والے فریقین کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں، وہ اپنے گھروں سے بے گھر ہو رہے ہیں اور اکثر تنازع کے باعث سب سے پہلے متاثر ہونے والوں میں سے ہیں'۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ 'ایکشن اگینسٹ ہنگر، جیسی انسان دوست تنظیمیں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتی ہیں تاہم ہمیں کام کرنے کے قابل ہونے کے لیے تمام فریقین کی جانب سے تحفظ کی ضمانت کی ضرورت ہے'۔

حکومتی میڈیا سینٹر کے صدر کی ہلاکت

دوسری جانب افغان حکومت کے میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے سربراہ دوا خان میناپل کابل میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: متضاد بیانات کے بعد طالبان کا خاشا زوان کے قتل کا اعتراف

افغان میڈیا طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کابل کے مغرب میں دارالامان روڈ پر پیش آیا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب دوا خان میناپل مسجد سے نکلے اور گاڑی میں سوار ہو کر گھر کی جانب جارہے تھے۔

واضح رہے کہ افغان میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

طالبان افغانستان کے کتنے اضلاع کا کنٹرول حاصل کرچکے؟

افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان جنگجو زیادہ بے خوفی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور انہوں نے متعدد اضلاع سے سرکاری فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں افغان سروس کی طرف سے اکھٹی کی گئی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے ملک بھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے جن میں ملک کے شمالی، شمال مشرقی اور وسطی صوبے، غزنی اور میدان وردک شامل ہیں، طالبان اب ملک کے بڑے شہروں قندوز، ہیرات، قندہار اور لشکر گاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

جن اضلاع پر طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ضلعی انتظامی مراکز، پولیس کے ضلعی ہیڈکواٹر اور دیگر ضلعی اداروں کی عمارتوں سے سرکاری اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کو بے دخل کر دیا ہے۔

'ویکسین پر سیاست سے، افراتفری جنم لے گی'

سیف علی خان نے پہلی اہلیہ کو طلاق کیوں دی؟ بیٹی نے ڈیڑھ دہائی بعد بتادیا

قصور: گینگ ریپ کے 3 مجرمان کو سزائے موت کا حکم