کابل میں گزرتی زندگی اور ہجرت کے بڑھتے خدشات
بابر نے کہا تھا اگر جنت بروئے زمین است، ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است۔
میں اسی جنت میں رہتی ہوں، کابل۔
مگر بابر کا چہیتا شہر آج کل اخباروں کہ شہ سرخی تو بن چکا ہے مگر جنت نہیں رہا۔ بے وفا عاشق کی طرح بہت بدل گیا ہے۔ میں تاریخ کی کتابوں میں اس کے پرانے خصائل ایسے تلاش کرتی ہوں جیسے دل جلی لڑکی بریک اپ کے بعد اپنے محبوب کے پرانے میسج پڑھ کر اچھے وقتوں کی سُہانی باتوں کو یاد کرکے روتی ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی خزینہ بچا ہی نہیں۔
پچھلے 10 سالوں سے میں اس کی صبحوں اور شاموں کی چشم دید گواہ ہوں۔ آج کل تو عجب حبس کا موسم ہے۔ جیسے ہواؤں پر کسی نے قیود لگا دیا ہو۔ ہوا تھوڑی دیر کے لیے شہر کی گلیوں، بازاروں میں چل کر پھر چھپ جاتی ہے۔ جولائی اگست کے مہینے میں جب پڑوسی ملک والے ساون کے دلفریب موسم کا لطف اٹھاتے ہیں، ہم گرمی گرمی کرتے ہیں۔ وہاں لوگ بادلوں کی گھن گھرج سے محظوظ ہوتے ہیں، یہاں پرندے پیاس سے مرنے لگتے ہیں۔
وہاں شہروں کی گلیاں، محلے بارش کے پانی سے ڈوب جاتے ہیں اور یہاں ہم پسینے میں۔ ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔ کابل کبھی پُرفضا وادی، ایک ٹھنڈا میٹھا شہر تھا۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ 1980ء کی دہائی میں بنائے گئے گھروں کی چھتوں پر پنکھے نہیں لگے ہوئے۔ پھر جنگ و جدل کی ایسی وبا پھیلی کہ موسم بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ہم 1980ء کی حبس سے پھر کبھی نکل ہی نہ سکے۔
یہاں ہر شخص پریشان سا، چُپ چاپ گھر سے نکلتا ہے اور واپس گھر آکر اسی پریشانی پر سَر رکھ کر سو جاتا ہے۔ آخر کوئی کب تک ایک ہی مسئلے پر بحث کرتا رہے؟
سیانے کہتے ہیں پانی میں مدھانی چلانے سے مکھن نہیں نکلتا، مکھن تو کجا لسی بھی نہیں بنتی۔ ہم بھی امریکی انخلا کے بعد ایک دوسرے سے خدشے شیئر کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ کل ایک عمر رسیدہ خاتون گھر آئی اور باتوں باتوں میں کہنے لگی 'بس اب جو بھی ہو اسی میں خیر ہو۔ میں تو تھک گئی یہ سوچ سوچ کر کہ ہمارے ساتھ اب کیا ہوگا۔ ایک چادر ہی تو ہے وہ بھی پہن لیں گے'۔
نوجوان لڑکیوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی اور کہا کہ 'اُف خالہ ایسا نہ کہو، تم تو زندگی گزار چکی ہو، نہ تم کو مکتب جانا ہے، نہ یونیورسٹی۔ نوکری، چاکری والی بھی نہیں۔ مسئلہ تو ہمیں ہے ناں'۔
وہ اپنے پُرانے وقت کو یاد کرنے لگی کہ 'جب طالبان کا وقت تھا میں شناختی کارڈ آفس میں کلرک تھی۔ نیلا برقع اوڑھ کر کرسی پر بیٹھا کرتی تھی۔ باقی سارے اسٹاف میں صرف مرد تھے جو پشتو زبان بولتے تھے۔ ایک میں اکلوتی فارسی بان جو اکا دکا دفتر آنے والی خواتین کے لیے تعینات تھی کہ شناختی کارڈ بناتے وقت ان کا چہرہ دیکھ کر ان کی عمر کا اندازہ کرکے سن درج کرسکوں۔ کبھی کبھی تو ہفتے بعد کوئی ایک آدھ خاتون آتی، پر برقعے کی جالی سے دیکھنے اور لکھنے میں کافی مشکل ہوتی'۔
اس کی داستان نے لڑکیوں کو مزید پریشان کردیا۔ قفس میں قید ہونے کا تصور ہی بہت بھیانک ہوتا ہے۔ اس وقت ساری دنیا کی نظریں افغانستان اور افغانوں کی دنیا پر ہیں، نہ جانے اس بار بادشاہِ وقت ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے؟ آس پڑوس کے ممالک اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ کہیں پھر افغان ہجرت کی خاطر ان کے ملکوں کا رخ نہ کریں اور یہاں یہ عالم ہے کہ عورتیں کبھی اپنے سجے سجائے گھر کو دیکھتی ہیں اور کبھی اپنے بچوں کے بستوں کو۔
ہجرت کا نام سُن کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے دل مُٹھی میں بھینچ دیا ہو۔ اور تو اور برتنوں کے شوکیس میں سجی قطار در قطار رکابیاں بھی ملول ہوجاتی ہیں۔ کبھی جہیز سے لائے قیمتی قالین فریاد کرنے لگتے ہیں کہ جانا پڑا تو کیا ہمیں بھی چھوڑ جاؤ گی؟ ہم تمہارے بابا کی نشانی، تمہارے قدموں سے سالہاسال لپٹ لپٹ کر مانوس ہوچکے ہیں، یا ہمیں اونے پونے بیچ دو گی؟
کبھی بچے کا جھولا سسکتا ہے، میری گنجائش نکلے گی کیا؟ اخروٹ کے درخت سے بنی وزنی مسہری چرچراتی ہے، میرا کیا ہوگا؟ بچوں کی سائیکل، بستر، توشک، چھت سے لٹکتے قیمتی فانوس، سجاوٹی اشیا، پردے اور پردوں کے ساتھ رکھے گلدان، چاندی کے مرتبان اور پیٹیوں میں رکھی متاع، چوبی کرسیاں، سنہری کاوچ اور ڈھیر ساری کتابیں سب افسردہ ہیں۔ کون کم بخت چاہتا ہے کہ بھرے پرے گھر بار چھوڑ کر کسی اجنبی جگہ مہاجر کا تمغہ ماتھے پر سجائے دربدر پھرتا رہے۔
مردوں کا دل حالات کی بھٹی میں پکتے پکتے سخت ہوجاتا ہے اور اپنا غم آسانی سے ظاہر کرنے نہیں دیتے۔ مگر عورت بلی کی طرح ہوتی ہے۔ اسے گھر کے چپے چپے سے عشق ہوجاتا ہے۔ عورت سارا دن گھر کا کونہ کونہ صاف کرنے میں گزار دیتی ہے۔ جوتوں سمیت کسی کو قالین پر آنے کی اجازت تک نہیں دیتی۔ آدھا دن تو اس کا مسہری کی سلوٹیں درست کرنے اور کھڑکیوں کے شیشے صاف کرنے میں گزر جاتا ہے باقی آدھا دن باورچی خانے میں گزار دیتی ہے۔
غنودگی میں بھی ہو اور کوئی پوچھے نمک کا ڈبہ کہاں رکھا ہے تو وہ بالکل ٹھیک جگہ بتاتی ہے۔ وہی خاتونِ خانہ جب ٹی وی آن کرتی ہے تو جنگ کی خبریں سُن کر اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ وہ دل بہلانے جب فیس بک کا رُخ کرتی ہے تو وہاں بھی ہر ایک کو اپنی چھوڑ یہی پڑی ہے کہ افغان کہیں اِدھر نہ آجائیں۔ وہ تکیہ اشکوں سے بھگو کر سو جاتی ہے اور کرے بھی کیا؟ کس کو کہے کہ ہجرت بھی بھلا کوئی کرنے والی چیز ہے۔ 50 لاکھ کی گاڑی اور 2 کروڑ کا گھر چھوڑ کر وہاں کرائے کے گھروں میں رہنا اور لوکل بسوں کے دھکے کھانا کہ مہاجروں کو بھلا موٹر خریدنے کی اجازت کہاں؟
اس ہجرت کے سبب بڑے بڑے پلازوں کے مالک، ہوٹل مالکان، مل اونر، فنکار، تاجران کی برسوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے، وہ عزت، شہرت چھوڑ کر نئے ملک نئی جگہ پھر صفر سے زندگی اسٹارٹ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ کوئی خوشی خوشی ہجرت نہیں کرتا، ان کے سروں پر بندوق رکھ کر انہیں ہجرت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ حقائق جانے بنا جتنی توانائی عوام ایک دوسرے سے نفرت کرنے پر لگا دیتے ہیں، کم از کم اس کا عشر عشیر اپنے حکمرانوں کی اصلاح پر مصرف کرے تو شاید دنیا میں ایسی بدامنی نہ ہو جیسی اب پھیلتی جا رہی ہے۔
قندھار کے حالات شدید خراب ہونے لگے تو میری پڑوسن پریشان تھی۔ اس کے سسرالی رشتے دار ہجرت کرکے کابل آئے تو میں ملنے گئی۔ عورتیں پریشان حال ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے ایسی بیٹھی تھیں جیسے میں ان کے گھر فاتحہ پر گئی ہوں۔ مجھے سمجھ نہ آئے میں بات کہاں سے شروع کروں۔ خیر خاموشی کا کفر ٹوٹا تو ایک نے کہا وہاں دن رات جھڑپیں تھیں، کمروں سے باہر نکلتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔
ایک نے کہا 'میں نے تو کپڑے دھو کر تار پر لٹکائے تھے اور اسی دن مردوں نے کہا جلدی کرو، کپڑے سمیٹو ابھی کے ابھی نکلنا ہے اس سے پہلے کہ صورتحال یہاں بھی خراب ہوجائے'۔ دوسری نے کہا 'میں جلدی میں زیورات تک نہ اٹھا سکی کہ وہ بکسوں میں پڑے تھے'۔ تیسری بولی 'بس ہر چیز مل جائے گی دعا کرو حالات بہتر ہوجائیں، یہی بڑی بات ہے زندہ سلامت نکل آئے'۔
اس بات پر اطمینان ملتے ہی سب نے چائے کا پیالہ اٹھایا اور سبز چائے کے تلخ گھونٹ بھرنے لگے۔ اسی اثنا میں ایک 5 سالہ بچہ کھسکتے کھسکتے میرے نزدیک آکر کہنے لگا، 'یہ لوگ میری مرغی اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی چھوڑ آئے ہیں'۔ یہ کہتے ہی وہ بچہ پھوٹ پھوٹ رونے لگا۔
میرے حلق میں انڈیلا چائے کا گھونٹ زہر کی طرح تلخ تر ہوگیا۔ اس نے اپنی ماں کی غفلت پر سر پیٹا۔
ثروت نجیب کابل میں مقیم گرافک ڈیزائنر اور صحافی ہیں۔ سارک ادبی شعبے اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی رکن بھی ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، غزلیں، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔