ایل این جی کا کھیل: محض نااہلی یا بدعنوانی؟
معاملات اب مشکوک ہوتے جارہے ہیں۔ جو چیز ایک سال قبل نااہلی سمجھی جارہی تھی وہ اب بدعنوانی نظر آرہی ہے۔ اگر کسی وجہ سے آپ کو نہیں معلوم کہ یہ حکومت ایل این جی کی درآمد میں کس طرح گڑبڑ کرتی رہی ہے تو آپ کے لیے منگل کے روز مچنے والی ہلچل کا احوال حاظر ہے۔ ویسے یہ کئی واقعات میں سے صرف ایک واقعہ ہے۔
جولائی کے وسط میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے اگست کے مہینے کے لیے ایل این جی کے حصول کے لیے اسپاٹ مارکیٹ میں ٹینڈر جاری کیا۔ جب ٹینڈر پر بولیاں آنا شروع ہوئیں تو ان کی قیمت خام تیل سے 27 فیصد زیادہ تھی۔ یعنی اگر طویل مدتی معاہدوں میں قیمت فی یونٹ 9.6 ڈالر ہے تو جولائی میں پاکستان کو ملنے والی اسپاٹ قیمت 20 ڈالر سے بھی زیادہ تھی جو اسے پاکستان کی جانب سے خرید گئی سب سے مہنگی بلکہ ممکنہ طور پر دنیا میں سب سے مہنگی ایل این جی بنا دیتی۔
پی ایس او کا کہنا ہے کہ اس نے اس بولی کو منسوخ کردیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ 5 اگست کو ایک اور ٹینڈر جاری کیا جائے گا۔ لیکن 5 دن بعد یعنی 2 اگست کو اوگرا کی جانب سے اسی قیمت کا نوٹس جاری کردیا گیا اور ڈان اخبار میں خبر شائع ہونے تک وہ نوٹس اوگرا کی ویب سائٹ پر موجود رہا۔
اس کو سمجھنے کے لیے پہلے نظام کے طریقہ کار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایل این جی خریدنے کے دو مجاز ادارے ہیں۔ ایک پی ایس او اور دوسرا پاکستان ایل این جی لمیٹڈ یا پی ایل ایل۔ ملک کی ایل این جی ضرویات سے انہیں آگاہ کیا جاتا ہے اور یہ مخصوص تاریخوں میں ایل این جی کے حصول کے لیے عالمی منڈی میں ٹینڈر جاری کردیتے ہیں۔ جب اس ٹینڈر پر بولیاں آتی ہیں تو یہ کچھ کو منظور اور کچھ کو رد کرتے ہوئے ’ایل این جی پرائس ڈیٹرمینیشن‘ اوگرا کو ارسال کردیتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ ’آنے والے مہینے کے لیے ہمیں ایل این جی اس قیمت پر ملے گی‘۔
قیمت کا یہ تعین بہت تفصیلی ہوتا ہے اور اس میں ایل این جی خریدے جانے کی قیمت کے علاوہ بھی کئی قیمتیں شامل ہوتی ہیں۔ ان میں ٹرانسمیشن لاسسز، ریٹینیج فیس، اور پی ایس او، پی ایل ایل اور ٹرمینل آپریٹر کا منظور شدہ مارجن بھی شامل ہوتا ہے۔ ٹرمینل آپریٹر ہی آنے والی ایل این جی کو ری گیسیفائی کرکے تقسیم کار نظام کا حصہ بناتا ہے۔
مزید پڑھیے: پی ایس او کا 'مہنگا ترین' ایل این جی کارگو خریدنے سے انکار، اوگرا نے نوٹیفکیشن واپس لے لیا
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے کچھ قیمتوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور چونکہ اوگرا کو ہر ماہ کی ابتدا میں آنے والے مہینے کے لیے قیمت کو نوٹیفائے کرنا ہوتا ہے اس وجہ سے اسے قیمت کا ’عارضی‘ تعین کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں شامل کچھ چیزوں کی قیمت میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ حقیقتاً یہ تبدیلیاں بہت معمولی ہوتی ہیں، شاید ہی کل قیمت کے ایک فیصد کے برابر۔ قیمت کی یہ عارضی نوعیت کبھی بھی اس قیمت سے متعلق نہیں ہوتی جس قیمت پر سپلائر سے ایل این جی خریدی گئی ہوتی ہے کیونکہ وہ تو ٹینڈر کے مطابق طے شدہ ہوتی ہے۔
2 اگست کو اوگرا نے اپنی ویب سائٹ پر اگست کے مہینے کے لیے قیمت کا تعین جاری کیا جو ایک معمول کا کام تھا۔ جس وقت وہ دستاویز ویب سائٹ پر اپلوڈ ہوا اس وقت سے جن لوگوں نے ایل این جی خریدی انہیں اس دستاویز میں درج قیمت کے مطابق ہی بل بھیجا گیا، اور قیمت کے اس نوٹیفیکیشن میں اوگرا نے 32 لاکھ یونٹ کے ایک کارگو کو شامل کیا تھا جس کی قیمت خام تیل کے 27 فیصد کے برابر یا یوں کہیے کہ 20 ڈالر فی یونٹ تھی۔ یہ قیمت اسی مہینے میں طے کیے گئے طویل مدتی معاہدوں کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ تھی۔
اگلے دن ڈان اخبار نے اپنے پہلے صفحے پر اس حوالے سے خبر شائع کی۔ تاہم خبر کی اشاعت کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر وزیرِ توانائی حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر اس خبر کو ’جھوٹا‘ قرار دیا اور کہا کہ ٹینڈر کو کچھ دن پہلے ہی منسوخ کردیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوگرا نے اس قیمت کو کس طرح نوٹیفائے کردیا جسے پہلے ہی منسوخ کردیا گیا تھا؟
متعلقہ وزارت اور پی ایس او دونوں نے اپنی اپنی وضاحت دے دی ہے اس وجہ سے اب اوگرا کو بھی اس ضمن میں وضاحت دے دینی چاہیے کہ اسے متعین شدہ قیمت کس طرح وصول ہوئی کیونکہ اوگرا کا کام تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب پی ایس او کی جانب سے بولی کی منظوری دے دی جاتی ہے۔
کچھ گھنٹوں بعد اوگرا نے ایک بیان جاری کیا جس میں صرف اتنا ہی کہا گیا کہ گزشتہ روز جاری کیے جانے والے قیمتوں کے تعین کو اب واپس لے لیا گیا ہے کیونکہ انہیں پی ایس او کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس ٹینڈر کو واپس لے لیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اوگرا نے ایل این جی کی قیمت کے تعین کو واپس لیا ہو۔
جس دوران یہ قیمت اوگرا کی ویب سائٹ پر موجود رہی اس دوران شاید حکومت میں سے کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ ہوسکتا ہے اس قیمت پر کچھ بل بھی جاری ہوچکے ہوں لیکن پھر بھی اس حوالے سے کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ اب دیکھیے کہ ایک منسوخ شدہ ٹینڈر پر ایل این جی کی قیمت کا تعین کردیا گیا اور حماد اظہر نے اخبار میں یہ خبر پڑھنے کے بعد اس پر توجہ دی۔ لیکن انہوں نے بھی اس بارے میں تحقیقات کرنے کے بجائے فوراً ہی اس خبر کو ’جھوٹا‘ قرار دے دیا۔ یعنی صارفین کو تو اسی قیمت کے تحت بل بھیجا جائے گا لیکن میڈیا کو اس پر خبر جاری نہیں کرنی چاہیے؟
مزید پڑھیے: تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)، مہنگی ایل این جی کس نے خریدی؟
کسی اچھے دن میں تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ نااہلی کی بہترین مثال ہے۔ لیکن منگل کا روز حماد اظہر کے لیے اچھا نہیں تھا۔ ایل این جی کی خریداری میں ہونے والی گڑبڑ کی قیمت اب کروڑوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے، بہرحال اس پر پھر کبھی کالم لکھوں گا۔ اس کھیل میں ایک فریق کا نقصان دوسرے فریق کا فائدہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال حکومت کو 4 ڈالر کے حساب سے ایل این جی کے طویل مدتی معاہدوں کی پیشکش ہوئی تھی تاہم حکومت نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔
اس وقت ہم 9.6 ڈالر کے ایل این جی معاہدے کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں اور 15 ڈالر کی ایل این جی خرید رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ 9.6 ڈالر کا طویل مدتی معاہدہ گزشتہ حکومت نے کیا تھا۔ ہم نے وقتاً فوقتاً انہیں ایسے اقدامات اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے کہ جن کا مقصد صرف ایل این جی کی سپلائی کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ ان اقدامات میں آرڈر میں تاخیر کرنا یا قیمتوں میں اضافہ ہونے دینا یا پھر دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس عمل کی وجوہات کے بارے میں سوال اٹھایا جائے۔
یہ مضمون 05 اگست 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔