پاکستان

نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

ملزم نے 20 جولائی کی شام کو تین دفعہ والداور 3 بجے اپنی والدہ کو فون کیا،یہی وقت تھا جب واقعہ پیش آیا، وکیل شاہ خاور
|

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے ملزم کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت کی جہاں وکیل راجا رضوان عباسی نے ایف آئی آر پڑھی اور کہا کہ 20 جولائی کو رات ساڑھے 11 بجے شوکت مقدم کی مدعیت میں ایف آئی آر درج ہوئی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: 'نئی تفصیلات، کردار' سامنے آنے کے بعد ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں ایک بار پھر توسیع

انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے میرے مؤکل نے عوامی سطح پر اس قتل کی مذمت کی اور ہم متاثرہ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ ہم اپنے بیٹے کے ساتھ نہیں کھڑے۔

وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کے سامنے ملزم کےبیان کو بنیاد بنا کر والدین کو بھی تفتیش میں شامل کیا گیا حالانکہ انہیں نہیں پتا تھا کہ گھر میں کوئی ایسا کام ہو رہا ہے جہاں نور اور ظاہر موجود تھے۔

رضوان عباسی نے کہا کہ ہم نے کون سی معلومات غلط دیں، کون سے ثبوت چھپائے کیونکہ ریکارڈ پر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نسیم ضیا نے کہا کہ ملزم کی والدین کے ساتھ بات ہورہی تھی لیکن انہوں نے پولیس کو آگاہ نہیں کیا، جب نوکر نے فون کیا تو اس وقت وہاں واقعہ ہو رہا تھا اور انہوں نے پولیس کے بجائے تھراپی ورک والوں کو بھیجا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم سے پستول بھی برآمد ہوا ہے، پستول ملزم کے والد نام پر رجسٹرڈ ہے۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ کال، سی ڈی آر، ڈی وی آر، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے، انہوں نے بد دیانتی کی بنیاد پر اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کی۔

پراسیکیوٹر نسیم ضیا نے کہا کہ اس مرحلے پر ضمانت کی درخواست مسترد ہونی چاہیے۔

جس پر شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ شوکت مقدم نے پولیس کی موجودگی میں اپنی بیٹی کی لاش دیکھی، سی سی ٹی وی اور سی ڈی آر کا ریکارڈ جمع ہو چکا ہے، جو ملزم کے والدین کو کیس سے منسلک کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مبینہ قاتل کی ’تھراپی ورکس‘ سے وابستگی پر عوامی تنقید

انہوں نے کہا کہ 20 جولائی کی شام کو ملزم نے تین دفعہ اپنے والد کو فون کیا اور 3 بجے اپنی والدہ کو فون کیا۔

شاہ خاور نے بتایا کہ یہ وقت تھا جب نور مقدم ظاہر جعفر کے پاس تھیں اور پولیس اسٹیشن آدھا کلومیٹر پر ہے لیکن چوکیدار کو نہیں کہا گیا وہ وہاں جائے۔

انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں ذاکر جعفر اور عصمت کا کردار ملزم کے ساتھ منسلک ہے اور یہ کافی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ ماں اور بیٹے کا رابطہ ہونا کیا جرم ہے، یہ تو معمول کا رابطہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکرپٹ، کال، وائس میسج ، واٹس ایپ میسج ایسا کچھ موجود نہیں تو رابطہ معمول کی کال ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج شیخ محمد سہیل نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد ملزم کے والدین کی درخواست ضمانت پر محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ 25 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کر لیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا تھا کہ مدعی مقدمہ و مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے تفصیلی بیان کی روشنی میں ملزم کے والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت آدم جی، گھریلو ملازمین افتخار اور جمیل سمیت متعدد افراد کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ ان تمام افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جارہا ہے جن کا اس قتل کے ساتھ بطور گواہ یا کسی اور حیثیت میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد اور اس قتل سے جڑے تمام بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام محرکات کے شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔

پولیس نے عدالت سے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

اسلام آباد کی عدالت نے 27 جولائی کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گرفتار والدین سمیت 4 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔

20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔

اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

آزاد کشمیر کے 13 ویں وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی کون ہیں؟

نائیجیریا: اغواکاروں کا 80 بچوں کی رہائی کیلئے تاوان کا مطالبہ

کلبھوشن کیلئے قانون سازی کے بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز