کسی جج نے پلاٹ الاٹمنٹ کیلئے درخواست نہیں دی، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے سیکریٹری قانون کو کہا ہے کہ ویمن ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) کی رضاکاروں کو بتایا جائے کہ نہ تو چیف جسٹس اطہر من اللہ اور نہ ہی کسی اور حاضر سروس جج نے کبھی پلاٹ کی الاٹمنٹ کے لیے حکومتی ادارے سے درخواست کی اور نہ ہی کوئی پلاٹ ان کے لیے مختص کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے 2 جون کے حکم کے مطابق درخواست گزاروں کو جواب دینے کے لیے سیکریٹری قانون کو معلومات فراہم کی گئیں۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن سے ویمن ایکش فورم کے اراکین نے یہ معلومات مانگی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'سابق چیف جسٹس کی مراعات غیرآئینی قرار'
ملک بھر سے ڈبلیو اے ایف کے 30 سے زائد رضاکاروں نے گزشتہ برس 20 اگست کو پاکستان انفارمیشن کمیشن میں ایک جیسی درخواستوں کے ذریعے استدعا کی تھی کہ انہیں رائٹ آف ایکسز آف انفارمیشن ایکٹ 2017 کے تحت وزارت قانون، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار سے طلب کی گئی معلومات نہیں دی گئیں۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کے علاوہ دیگر ججز کی آمدن اور اثاثوں بشمول ان کے بچوں اور شریک حیات کی آمدن اور اثاثوں، مراعات، پینشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے فوائد کے علاوہ 2017 سے 2020 تک ادا کیے گئے انکم ٹیکس کی معلومات مانگی گئی تھیں۔
علاوہ ازیں حکومت کے زیر انتظام یا سرکاری یا ریاستی ادارے، کمپنی، فاؤنڈیشن یا باڈی کی کسی بھی اسکیم میں گزشتہ 5 برسوں میں چیف جسٹس اور ججز کو الاٹ کردہ پلاٹ کی معلومات بھی طلب کی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: ججز اور مسلح افواج کے افسران پلاٹس کے حقدار نہیں، جسٹس عیسیٰ
پی آئی سی نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس سرکاری ادارے کی تعریف میں آتے ہیں، ساتھ ہی یہ ذکر کرتے ہوئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کی اہلیہ نے رضاکارانہ طور پر درخواست گزاروں کو طلب کردہ معلومات فراہم کی تھیں اور ایکٹ کے تحت ایک جج کے رضاکارانہ اقدام پر تمام ججز کو قانونی طور پر پابند نہیں کیا جاسکتا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ چونکہ سپریم کورٹ کا کوئی ایسا فیصلہ موجود نہیں ہے جو اس بنیاد پر شہریوں کو عدالت عظمیٰ سے معلومات لینے سے روکے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے، لہٰذا اس کمیشن کے پاس معاملے کا تعین کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی تناظر میں معلومات کے آئینی حق کے ذریعے عوامی احتساب اور حکومتی نگرانی سے عدلیہ کی علیحدگی کے اصولوں کو سمجھنا بھی اہم ہے۔
خیال رہے کہ ویمن ایکشن فورم نے گزشتہ برس اگست میں سرکاری عہدیداران بشمول عدالت عظمیٰ اور پانچوں عدالت عالیہ کے چیف جسٹسز اور ججز، پاک آرمی کے چیف آف آرمی اسٹاف اور تمام لیفٹیننٹ جنرلز، میجر جنرلز اور بریگیڈیئرز، فضائیہ کے ایئر چیف مارشل، ایئر مارشل، ایئر وائس مارشلز اور کموڈورز کے علاوہ پاک بحریہ کے ایڈمرل، وائس ایڈمرل، ریئر ایڈمرل اور کموڈور سے متعلق معلومات مانگی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون بے سہارا لوگوں کی آخری اُمید؟
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے 2 جون 2021 کو جزوی اجازت دیتے ہوئے وزارت قانون کے پبلک انفارمیشن افسر کو حکم دیا تھا کہ اس حکم کے بعد7 روز کے اندر مانگی گئی معلومات سے متعلق تمام نوٹی فکیشنز درخواست گزاروں کے ساتھ شیئر کیے جائیں۔
جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 جولائی 2021 کو ایک خط کے ذریعے وزارت قانون کے سیکریٹری کو کہا کہ درخواست گزاروں کو بتایا جائے کہ ہائی کورٹ کے کسی جج نے پلاٹ کے لیے درخواست نہیں دی اور نہ ہی انہیں کوئی پلاٹ دیے گئے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے عدالتی افسران کی مراعات سے متعلق تمام صدارتی احکامات پبلک دستاویزات ہیں اور آفیشل ویب سائٹس پر موجود ہیں، جن میں ججز کو پینش اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی تمام مراعات کی تفصیلات درج ہیں۔