کوسورو جھیل: ٹریکرز کی دنیا میں ایک نئی دریافت
کوہ نورد جب کسی ٹریک کے دوران اپنے آپ کو کوسنا شروع کردے تو سمجھ لیجیے کہ ٹریکنگ کا مقصد پورا ہوگیا۔ کوسورو جھیل کی تلاش میں اب ہیچ ہوچکا ہمدان اکتاہٹ کا شکار تھا اور اپنے ساتھی ذیشان کو چلتے چلتے یہ کہہ رہا تھا کہ بس اب میں اور آگے نہیں جاسکتا۔ اس دوران پیچھے مُڑ کر دیکھا تو کوئی بھی دُور دُور تک موجود نہیں تھا البتہ ایک نظارہ ضرور تھا جس کی کشش نے مجھے دوبارہ جھیل کی طرف چڑھنے پر مجبور کردیا۔
وہ نظارہ کیا تھا؟ یہ وہ نظارہ تھا جس کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرکے ٹریکرز کنکارڈیا کا دیدار کرتے ہوئے کے ٹو، براڈپیک، جی ون، جی ٹو، چوغولیزا جیسے عظیم الجثہ پہاڑوں کے دامن میں جا پہنچتے ہیں۔ مذکورہ پہاڑوں کا دیدار کرنا کسی بھی کوہ نورد کا خواب ہوتا ہے اور میرا خواب پورا ہوچکا تھا۔ شاید یہ پہلی ایسی جھیل ہوگی جہاں سے اتنی ساری چوٹیاں ایک ساتھ دیکھنے کو مل رہی تھیں۔
کوسورو جھیل تک رسائی کے لیے بلتستان کے سیاحتی صدر مقام اسکردو پہنچنا پڑتا ہے جہاں سے 80 کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد کارگل روڈ پر واقع طولتی نامی ایک گاؤں آتا ہے۔ طولتی دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک چھوٹی آبادی ہے۔ بمشکل ڈیڑھ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں سے ایک راستہ کوسورو نالہ کی معیت میں کوسورو گاؤں تک جاتا ہے۔
طولتی سے کوسورو گاؤں کا فاصلہ تقریباً 14 کلومیٹر ہے۔ مقامی آبادی عموماً موٹرسائیکل کے ذریعے سفر کرتی ہے جبکہ جیپ کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ راستہ قدرے دشوار گزار ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ضلع کھرمنگ کے وسط میں بہنے والے نالوں میں یہ سب سے مشکل راستہ تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ برادرم نذر نے محترم راجہ جلال سے میرے آنے کے بابت پہلے ہی بات کرلی تھی جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ عصر کے وقت کوسورو گاؤں جا پہنچے اور اپنے گائیڈ محمد عباس کے گھر رات قیام کا فیصلہ کیا۔
کوسورو اگرچہ دیہاڑی دار اور زراعت پیشہ طبقے پر مشتمل ایک گاؤں ہے اور کسی بھی قسم کی بنیادی طبی، تعلیمی اور مواصلاتی سہولت سے محروم ہے مگر مہمان نوازی کے وصف سے مالا مال ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ غیر مقامی افراد کوسورو جھیل کی تلاش میں یہاں آ پہنچے تھے لہٰذا ہماری خوب آؤ بھگت کی گئی۔
اسی دوران عباس نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کو اس جھیل کے بارے میں کیسے علم ہوا؟ جس پر ذیشان نے بتایا کہ گزشتہ سال نصر بھٹی اس جھیل کے لیے بلتستان آئے تھے مگر کورونا کے جکڑ لینے کے بعد غندوس کی غوراشی ژھو کی ٹریکنگ پر ہی اکتفا کیا اور واپس چلے گئے۔ اب قسمت نے دوبارہ موقع دیا ہے تو کوشش ہے کہ اس سال اس جھیل کا دیدار کرکے ہی لوٹا جائے۔ عباس نے بتایا کہ جھیل کا فاصلہ کچھ زیادہ ہے اور غیر مقامی جھیل کا قصد سوچ سمجھ کر ہی کرتے ہیں اور عموماً خیمہ لے کر رات قیام کرتے ہیں۔
مختصر میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ علی الصبح ساڑھے 4 بجے نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد روانہ ہوا جائے گا۔ ہم مقامی سبزی، دیسی گھی اور لسی سے بھرپور ڈنر کرکے جلد ہی سوگئے۔ صبح سویرے نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد ناشتہ کرکے گاؤں سے روانہ ہوئے۔ تازہ ہوا کے جھونکے، شوریدہ سرنالہ، دُور چوٹیوں پر طلوع ہوتا سورج اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ آج کا دن کوہ نوردی کے لیے موزوں ہوگا۔
اس امید کے سہارے پہلی چڑھائی چڑھنے لگے اور جلد ہی گاؤں کی زمین ہمارے قدموں تلے آگئی۔ یہاں سے نظارہ قابلِ دید تھا۔ ایسا لگا جیسے وادی تنگ سی ہوگئی ہو اور اطراف موجود پہاڑ ایک دوسرے کے قریب تر ہوگئے۔ عباس نے اشارہ کرتے ہوئے اگلی عمودی چڑھائی کو راستے کا پتھر قرار دیا اور جلد ہی ٹاپ تک پہنچنے کا حکم صادر فرمادیا۔
3 گھنٹے کی مسافت کے بعد جب یہ چڑھائی بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوئے تو حسبِ عادت اگلے ڈک (ایک اور سخت اور عمودی چڑھائی) کو پار کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا، اور یوں 8 سے 9 مرتبہ ہمارے ساتھ کچھ اسی طرح کا مذاق کیا جاتا رہا۔
خیر ہم بھی عرصہ دراز سے اس مذاق کے عادی رہے ہیں۔ لیکن اب کی مرتبہ 11 ہزار فٹ سے 13 ہزار کی اونچائی تک پہنچنے کے علاوہ قریباً 8 کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے کرچکے تھے۔ ہمت کچھ جواب سی دینے لگی تو عباس کی مشاورت سے کچھ دیر کے لیے سستانے کا فیصلہ ہوا۔
کچھ تازہ دم ہوئے تو دوبارہ رختِ سفر باندھا۔ شبھدن اور تمبرق جیسی قیمتی بوٹیوں اور لہلہاتے پھولوں کے بیچوں و بیچ ہم منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مذکورہ بالا دونوں بوٹیاں عام طور پر مقامی افراد قہوے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لہٰذا عباس ان بوٹیوں کو چُنتے ہوئے چل رہے تھے جبکہ میں اور ذیشان آہستہ آہستہ ان سرمئی پہاڑوں کی جانب بڑھنے لگے جن میں سفید رنگ کی رگیں نمایاں تھیں۔ اس بار ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا تھا کہ ان پہاڑوں کے دامن میں جھیل واقعتہ موجود تھی۔
چلتے چلتے گھاس کے میدان اب سخت چٹیل پہاڑوں میں بدل چکے تھے۔ پتھروں کے نیچے چلتا پانی اپنی موجودگی کا احساس تو دلا رہا تھا لیکن پانی کا حصول ناممکن تھا۔ عموماً جھیلوں کی کھوج میں اس طرز کی چٹانوں کا مطلب جھیل کی آمد کی نوید ہوتی ہے۔
مگر جھیل ابھی بہت دُور تھی۔ تھکاوٹ کا احساس بڑھ گیا تھا اور حلق شدید خشک۔ ساڑھے 14 ہزار کی بلندی اور گلیشیئرز کی ہوا نقاہت کا احساس مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہمت جواب دینے لگی اور جھیل کا دیدار کٹھن محسوس ہونے لگا تھا۔ ہلکا سا بخار اس بات کی علامت تھا کہ ٹھنڈ اپنا اثر جسم میں چھوڑ چکی ہے۔ 14 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے ہوچکا تھا اور ہم 15 ہزار فٹ کی بلندی چڑھ چکے تھے جو کسی بھی ٹریکنگ میں کافی ہوتا ہے۔
ہمت ہار کر جب ذیشان کو اپنے ارادے سے مطلع کرنے کے لیے مُڑا تو میشابرم اور کے ٹو کی چوٹی دیکھ کر جیسے ہمت بڑھ گئی۔ ذیشان بھی اس لیے پیچھے رُک گیا تھا کہ وہ ان چوٹیوں کا دیدار کرنے اور پہچاننے میں مصروف تھا۔ دورتغمہ کا پہاڑ ہمارے بائیں طرف، جھیل کا آخری ڈک ہمارے دائیں طرف جبکہ ہمارے سامنے 7 عظیم الشان چوٹیوں کا نظارہ تھا۔ قسمت والوں کو ہی اس نظارے کا دیدار نصیب ہوتا ہے اور ایسے منظر کو الفاظ میں بیان کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔
کوسورو گاؤں کے مکینوں کے مطابق دورتغمہ (19 ہزار فٹ) سے ایک طرف لداخ کی جانب کا حصہ جبکہ دوسری طرف کے ٹو، براڈ پیک و دیگر بلند و بالا چوٹیاں بہت ہی واضح نظر آتی ہیں۔ ہماری ہمت اور حوصلے نے بھی ان پہاڑوں جتنی بلندی حاصل کرلی تھی۔
بالآخر جھیل قریب آچکی تھی اور محنت رنگ لا چکی تھی۔ ہم ایک چھوٹے سے گلیشیئر کو عبور کرتے ہوئے جھیل کے قرب میں جاپہنچے۔ جھیل کا دیدار ہوتے ہی سبحان اللہ کے کلمات منہ سے نکل گئے۔ شانِ خداوندی اس دُور دراز موجود جھیل سے منعکس ہورہی تھی اور ہمیں قدرت کی صناعی کی تعریف پر مجبور کررہی تھی۔
جھیل کے پانی کی ہلکی نیلی رنگت دُور سے نمایاں تھی۔ عقب میں موجود پہاڑ جھیل کا حُسن و جمال مزید بڑھا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے قدرت نے دانستہ طور پر چھوٹا کے ٹو کو جھیل کے عقب میں جڑ دیا ہو۔ جھیل کے بائیں جانب ایک ڈک کے بعد مزید 2 چھوٹی جھیلیں موجود ہیں۔ مگر کوسورو کی بڑی جھیل کے حُسن کے آگے چھوٹی جھیلیں بے بس دکھائی دیتی ہیں۔
یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ضلع کھرمنگ کی یہ دوسری بڑی جھیل ہے اور اس کی بلندی سطح سمندر سے 15 ہزار 500 فٹ ہے۔ عباس اور طولتی کے چند دیگر جوانوں نے ہماری ہمت کو داد دیتے ہوئے بتایا کہ آپ پہلے غیر مقامی ہیں جو اس جھیل پر پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں، حتیٰ کہ کھرمنگ ضلع کے مقامی افراد بھی اس جھیل کا قصد کم ہی کرتے ہیں۔
جھیل پر چمکتا سورج اور پانی کی سطح پر ارتعاش پیدا کرتی تیز ہوا ہمارا استقبال کررہی تھی۔ ٹریکرز کی دنیا میں ایک نئی جھیل کا اضافہ ہوچکا تھا اور یوں جھیل کے پرچار کے عزم کے ساتھ ہم واپس کوسورو گاؤں پہنچ گئے۔
تصاویر: لکھاری
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔