پاکستان

آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف جدوجہد نہیں چھوڑیں گے، نواز شریف

یہ جدوجہد محض چند سیٹوں کی ہار جیت کے لیے نہیں بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لیے ہے، قائد مسلم لیگ (ن)

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے اپنی سویلین بالادستی کی پالیسی پر نظرثانی کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن پارٹی کے قائد نواز شریف نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اعلان کیا کہ پارٹی پیچھے نہیں ہٹے گی اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کے بیانیے سے اختلاف، انتخابات میں شکست کی وجہ ناقص حکمت عملی نہیں تھی، شاہد خاقان

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر متعدد ٹوئٹس کیں، جس میں آزاد جموں و کشمیر انتخابات اور سیالکوٹ ضمنی انتخابات میں پے درپے شکستوں کے باوجود اپنی پارٹی کے مؤقف کی توثیق کی۔

’علاج کی غرض‘ سے نومبر 2019 سے لندن میں موجود نواز شریف نے کہا کہ یہ جدوجہد محض چند سیٹوں کی ہار جیت کے لیے نہیں بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لیے ہے اور اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتہ کیے بغیر تاریخ کی درست سمت میں کھڑے نظر آنے کے لیے ہے۔

آزاد جموں و کشمیر انتخابات اور سیالکوٹ میں انتخابی شکست کے بعد پارٹی کے اندر بحث و مباحثے نے جنم لیا ہے کہ نواز شریف کے اس بیانیے پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ ہر ادارے کو اپنے آئینی کردار کے تحت کام کرنا چاہیے اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو از سرنو مفاہمت کا موقع دینا چاہیے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں۔

نواز شریف کا یہ بیان شہباز شریف کے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے ایک دن بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین ایک عظیم مذاکرات کے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا آزاد کشمیر کے انتخابات میں ‘دھاندلی‘ کے خلاف احتجاج کا عندیہ

انہوں نے مزید کہا کہ آزاد جموں و کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی انتخابات کے نتائج جس طریقے سے حاصل کیے گئے وہ پولنگ کے دن سے بہت پہلے سامنے آچکے تھے، اس حوالے سے مزید حقائق مستقبل میں سامنے آئیں گے۔

پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے بتایا کہ نواز شریف نے پارٹی میں ان آوازوں کا جواب دیا ہے جو چاہتے تھے کہ وہ شہباز شریف کے بیانیے کو موقع دیں لیکن بڑے بھائی کا پیغام بالکل واضح ہے، محاذ آرائی کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جو ووٹ کو عزت دو کی پالیسی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے ارکان جو شہباز شریف کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی اُمید رکھتے ہیں مایوس ہوں گے۔

آزاد کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی انتخابات کے بعد شہباز شریف کے استعفے کی افواہوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہباز گروپ کی جانب سے یہ ایک طرح کا دباؤ تھا تاکہ نواز شریف کو کچھ لچک دکھانے پر مجبور کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ سے کراچی، انتخابی نااہلی کی طویل داستان

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک انٹرویو کے دوران شہباز شریف کے اس بیان سے اختلاف کیا تھا کہ اگر پارٹی 2018 کے انتخابات سے پہلے اتفاق رائے کی حکمت عملی تیار کرتی تو نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم منتخب ہو سکتے تھے۔

ایک نجی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی کی حکمت عملی اس کے صدر (شہباز شریف) نے بنائی ہے، میں شہباز شریف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ہم کیا حکمت عملی تیار کر سکتے تھے جس سے ہمیں اقتدار میں واپس آنے میں مدد مل سکتی تھی۔

پی ایس او نے مہنگا ترین ایل این جی کارگو خرید لیا

اریبہ حبیب نے ’بات پکی‘ ہوجانے کی تصدیق کردی

برطانوی عدالت کا نیب کو 12 لاکھ ڈالر براڈشیٹ کو ادا کرنے کا حکم