اوسلو یونیورسٹی ہاسپٹل کی اس تحقیق میں 13 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ کے شک پر یکم فروری سے 15 اپریل سے 2020 کے دوران ٹیسٹ ہوئے تھے، جبکہ عام آبادی سے بغیر ایسے افراد کو منتخب کیا گیا جن کے ٹیسٹ نہیں ہوئے تھے۔
جن افراد کے کووڈ مثبت آئے تھے ان میں بیماری کی شدت معمولی تھی اور ہسپتال بھی داخل نہیں ہوئے۔
ان افراد سے بیماری کو شکست دینے کے 8 ماہ بعد آن لائن سوالنامے بھروائے گئے جن میں ان سے یادداشت کے مسائل اور صحت سے متعلق معیار زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ گروپ میں شامل 11 فیصد افراد نے بیماری کے 8 ماہ بعد یادداشت کے مسائل کو رپورٹ کیا، کووڈ سے محفوظ گروپ میں یہ شرح 4 فیصد اور بغیر ٹیسٹ والے افراد میں یہ شرح 2 فیصد تھی۔
تحقیق میں دوسرے گروپ کے مقابلے میں کووڈ سے متاثر افراد میں کووڈ کے مرض اور 8 ماہ بعد یادداشت کے مسائل کے تعلق کا مشاہدہ کیا گیا۔
کووڈ سے متاثر افراد میں سے 41 فیصد نے ایک سال پہلے کے مقابلے میں صحت میں خرابی کو رپورٹ کیا جبکہ 12 فیصد نے توجہ مرکوز کرنے کے مسائل کے بارے میں بتایا۔
کووڈ کو شکست دینے کے بعد یادداشت کے مسائل کا سامنا کرنے والے 82 فیصد افراد نے صحت کی خرابی کو بھی رپورٹ کیا۔
محققین نے بتایا کہ نتائج اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ہمیں اس خیال پر نظرثانی کی جانی چاہیے کہ کووڈ 19 ایک ممولی مرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بھی سوالات ابھرتے ہیں کہ کیا گھر میں علاج کی حکمت عملیاں طویل المعیاد نتائج کے لیے کس حد تک مثالی ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب جولائی 2021 میں مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔
یہ تحقیقی رپورٹس الزائمر ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کی گئی تھیں۔