نقطہ نظر

ٹوکیو اولمپکس: اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تنقید درست کیوں نہیں؟

پاکستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے تمام رکاوٹوں کے باوجود ان کھیلوں تک رسائی حاصل کرنے پر ان کو سراہا جانا چاہیے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ 3 دہائیوں میں پاکستان نے اولمپکس کھیلوں میں کتنے میڈل حاصل کیے ہیں؟ اس کا جواب ہے صفر۔ اس عرصے میں ایک نسل پیدا ہوئی، جوان ہوئی اور اب تو شاید ان کے بھی بچے ہوگئے ہوں لیکن اولمپکس کھیلوں میں پاکستان کی بدقسمتی اب بھی برقرار ہے۔

تادمِ تحریر پاکستانی ویٹ لفٹر طلحہ طالب 67 کلوگرام کیٹیگری میں شاندار کارکردگی کی وجہ سے ایک میڈل جیتنے کے بہت قریب تھے۔ طلحہ اس مقابلے میں 5ویں نمبر پر رہے اور صرف 2 کلوگرام کے فرق سے کانسی کا تمغہ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود بھی طلحہ نے سخت محنت کی۔

طلحہ کے کوچ اس کے والد تھے، تاہم مقابلے میں اس کے پاس فلسطینی کوچ سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ پاکستان سے اس کے ساتھ اس کے کوچ کے بجائے پاکستان ایشین ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کا ایک آفیشل گیا تھا۔

بدقسمتی سے طلحہ وہ واحد پاکستانی کھلاڑی نہیں تھے کہ جسے اولمپک میں اپنے کوچ کی مدد حاصل نہیں تھی۔ تقریباً تمام ہی کھلاڑیوں کے لیے ان کی گورننگ باڈیز کے اہلکار ہی معاون عملے کی حیثیت میں موجود تھے۔

اس سال اولمپکس کھیلوں میں شامل پاکستانی دستے میں 10 کھلاڑی اور اتنی ہی تعداد میں معاون عملہ موجود رہا۔ صرف تقابل کے لیے اگر بھارت کے دستے پر نظر ڈالی جائے تو اس میں 127 کھلاڑی (مرد و خواتین) شامل تھے۔ ان کے ساتھ کوچز، آفیشلز اور ڈاکٹر بھی موجود تھے یوں ان کا دستہ 228 افراد پر مشتمل تھا۔

یہاں غور کے لیے اہم بات یہ ہے کہ بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ (دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کی طرح) زیادہ تر کوچز اور ڈاکٹر موجود تھے۔ ان کے دستے میں ایسے آفیشلز شامل نہیں تھے جو کوچز کی جگہ خود کھلاڑیوں کے ساتھ چلے جائیں۔

لیکن پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی جانب سے خاطر خواہ مدد اور سہولیات نہ ملنے کے باوجود بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے جس طرح پاکستان کی نمائندگی کی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔

انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کی جانب سے پاکستان پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی کے بعد ان کھیلوں میں پاکستان کی شمولیت ہی اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے تمام رکاوٹوں کے باوجود ان کھیلوں تک رسائی حاصل کرنے پر ان کو سراہا جانا چاہیے۔

ماہور شہزاد اولمپکس میں بیڈمنٹن کے کھیل میں ملک کی نمائندگی کرنے والی پہلی پاکستانی ہیں۔ ماہور نے پہلے راؤنڈ میں اکانے یاماگوچی سے شکست کھائی جو بیڈمنٹن میں عالمی سطح پر چوتھی بہترین خاتون کھلاڑی ہیں۔ ماہور کا دوسرا میچ کرسٹی گلمور سے ہوا جو عالمی سطح پر بیڈمنٹن کی 10ویں بہترین کھلاڑی ہیں۔ اس میچ کے اختتام کے ساتھ ہی ماہور کا اولمپک میں سفر بھی تمام ہوگیا۔ ماہور اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ دونوں ہی مقابلے بہت سخت تھے، لیکن وہ میچ جیتنے کے لیے بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے حوالے سے پُرامید تھیں۔

ماہور نے اپنی ٹریننگ کے دورانیے کے حوالے سے بتایا کہ ’میں اتوار کے علاوہ روزانہ دو مرتبہ پریکٹس کرتی تھی، میری ٹریننگ کا دورانیہ روزانہ تقریباً 5 گھنٹے ہوتا تھا۔ لیکن جب سے میں جاپان آئی ہوں تب سے ہمیں ٹریننگ کے لیے ڈیڑھ سے 2 گھنٹے ہی مل رہے ہیں، اس میں سے بھی صرف 30 منٹ مین ہال جبکہ باقی وقت پریکٹس ہال کے لیے دیے گئے‘۔

ماہور نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے بیڈمنٹن میں پاکستان کی زیادہ شہرت نہیں ہے اسی وجہ سے میں گزشتہ 7 دہائیوں میں اولمپکس میں بیڈمنٹن کے کھیل میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی کھلاڑی ہوں، اور میں بالکل بھی گولڈ میڈل جیتنے سے متعلق کوئی غلط امید نہیں دلاؤں گی۔ مجھے سخت مقابلوں کا سامنا ہے اور میں پوری کوشش کروں گی کہ اپنی بھرپور کارکردگی پیش کرسکوں‘۔

ارشد ندیم اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ٹریننگ کا مناسب موقع ملا۔ ان کے مطابق ’ہم روزانہ دو ٹریننگ سیشن کرتے تھے۔ پہلا سیشن صبح کے وقت شروع ہوتا تھا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہتا تھا۔ دوسرا سیشن شام کے وقت ہوتا جو تقریباً ڈھائی سے 3 گھنٹوں تک جاری رہتا‘۔

ارشد نے بتایا کہ وہ جیولن تھرو کی تکنیک، پاور اور رفتار کی پریکٹس پر 2، 2 دن صرف کرتے اور ایک دن آرام کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کیمپ میں 6 ماہ تک تربیت حاصل کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے لیے میڈل کے حصول کے لیے پُرامید ہیں۔

سہولیات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ارشد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جیولن تھرو کے لیے بہت زیادہ سہولیات موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کسی ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ ٹریننگ کرتا تھا۔ گراؤنڈ کے لیے میں کبھی پنجاب اسٹیڈیم اور کبھی کسی اور جگہ جاتا تھا۔ مجھے ایک ہی جگہ پر تمام سہولیات میسر نہیں تھیں‘۔

نجمہ پروین 200 میٹر دوڑ کے لیے منتخب ہوئی ہیں اور وہ پُرامید ہیں کہ وہ ملک کے لیے فخر کا باعث بنیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں قومی سطح پر 6 میڈل حاصل کرچکی ہوں اور اسی وجہ سے مجھے ٹوکیو اولمپکس میں شمولیت کا موقع ملا۔ میں 12 سال سے نیشنل چمپیئن ہوں اور میں نے نیشنل ریکارڈ بھی بنایا ہوا ہے۔ میں نے ساؤتھ ایشین گیمز میں بھی 2 سونے کے تمغے، 2 چاندی کے تمغے اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کیا ہوا ہے۔ میں نے 2016ء کے اولمپکس میں بھی شرکت کی تھی اور حال ہی میں ساؤتھ ایشین گیمز میں بھی میں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کے لیے ریکارڈ بنائے‘۔

شاہ حسین شاہ جاپان میں مقیم جوڈو کے ماہر ہیں۔ وہ جوڈوکا کی 100 کلو گرام کیٹیگری میں اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرے دوسرے اولمپکس ہیں۔ میری تیاری بہت اچھی ہے لیکن یہ کھیل مشکل ہے۔ پریکٹس کے دوران آدمی تناؤ اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے لیکن مجھے احساس ہے کہ مجھے خود کو تناؤ اور بے چینی کا شکار نہیں ہونے دینا‘۔

شاہ حسین شاہ کو اندازہ ہے کہ پاکستان نے طویل عرصے سے اولمپکس میں کوئی میڈل حاصل نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد نے پاکستان کے لیے باکسنگ میں آخری میڈل 1988ء میں حاصل کیا تھا۔ اس وجہ سے بھی میں چاہتا ہوں کہ اس روایت کو آگے بڑھاؤں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’گزشتہ 5 سالوں میں بطور ایتھلیٹ مجھ میں بہت بہتری آئی ہے۔ میں نے ذہنی صحت جیسی نئی چیزوں پر بھی توجہ دی ہے اور ٹریننگ کے لیے ایک کوچ بھی رکھا ہے۔ اس دوران میں نے بہت سی نئی چیزوں کا تجربہ کیا ہے جس سے میری کارکردگی بہت بہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ سال میری کارکردگی بہت اچھی تھی، بدقسمتی سے کورونا کے بعد سے ٹریننگ میں ٹھہراؤ آگیا اور ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ سب کے ساتھ ہوا۔

’مجھے دیگر کھیلوں کے حوالے سے معلوم نہیں لیکن جوڈوکا کو جو چیز دیگر کھیلوں سے جدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ عالمی رینکنگ کے حوالے سے اس میں غلطی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔ آپ کو اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اولمپکس تک رسائی کے لیے بہترین ایتھلیٹس میں آپ کا درجہ بھی بہتر رہے۔ کورونا کی وجہ سے سامنے آنے والے چیلنجز کے باعث گزشتہ سال رینکنگ کو برقرار رکھنا بہت مشکل تھا، لیکن الحمد اللہ پاکستان جوڈو فیڈریشن، آرمی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ، پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے تعاون سے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے قابل ہوا‘۔

ان اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے دیگر 5 کھلاڑیوں میں گلفام جوزف بھی شامل ہیں جو 10 میٹر ایئر پسٹل شوٹنگ کے کواٹر فائنل میں رسائی کے بہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن رسائی حاصل نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل میں بھی محمد خلیل اختر اور غلام مصطفٰی بشیر پاکستان کے لیے میڈل پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ تیراکی میں سید محمد حسیب طارق 100 میٹر فری اسٹائل اور بسمہ خان 50 میٹر فری اسٹائل میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

یہ کھلاڑی دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ مقابلے کر رہے ہیں اور اس وقت پاکستان کے لیے یہ بھی کسی کامیابی سے کم نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں جس کا وزیرِاعظم خود ایک کھلاڑی رہا ہے وہاں کھیلوں کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ صورتحال کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے حوالے سے ہماری ترجیحات کی عکاس ہے۔

ستمبر 2018ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ احسان مانی کی سربراہی میں ملک میں مجموعی طور پر کھیلوں کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی تھی تاہم اس ضمن اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اسی لیے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تنقید کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں بہترین سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ وہ کم از کم کام ہے جو ہم ان کے لیے کرسکتے ہیں۔


یہ مضمون یکم اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزن میں شائع ہوا۔

ہمایوں احمد خان

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ان کی ٹوئٹر آئی ڈی HumayounAK@ ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔