'وبا پر قابو پانے کیلئے این سی او سی کے مرکزی پلیٹ فارم سے فیصلے ضروری ہیں'
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے کہا کہ ہم سے بہت امیر ممالک میں این سی او سی جیسا مربوط نظام موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے وبا کو قابو کرنے میں جو کامیابی پاکستان نے حاصل کی وہ بڑے ممالک نہیں حاصل کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس پلیٹ فارم پر معلومات آتی ہیں، اس پر غور ہوتا ہے پھر اس کی بنیاد پر فیصلے پورے ملک پر نافذ ہوتے ہیں اور ان کی نگرانی بھی کی جاتی ہے، اللہ کے کرم سے ہم ہر مرتبہ کورونا وائرس کی لہر پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے مزید کہا کہ پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی گئی جیسی اس خطے کے دیگر ممالک ایران، بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، افغانستان اور نیپال وغیرہ میں دیکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی میں بھارت کی طرح کورونا پھیلا تو ذمے دار عمران خان ہوں گے، بلاول
انہوں نے کہا کہ مشرقی ایشیا میں صورتحال قدرے بہتر تھی لیکن حالیہ لہر میں حالات بگڑتے جارہے ہیں جس کی وجہ کورونا وائرس کی بھارتی قسم ہے جو انتہائی تیزی سے پھیلتا ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ اس سے قبل وائرس کی برطانوی قسم، کورونا وائرس کی اولین شکل سے 60، 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتا تھا لیکن بھارتی قسم، برطانوی قسم سے بھی 60 سے 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم شہروں کو ہدف بنائیں گے جس کا فیصلہ کل وزیراعظم کے ساتھ اجلاس میں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وبا کو قابو کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار کسی حکومت کے پاس نہیں بلکہ عام آدمی کے پاس ہے، اگر وہ پر ہجوم مقام پر جانے سے گریز کرے، ایسے مقامات پر ماسک لگائیں اور فاصلہ رکھیں کیوں کہ یہ گھر میں ایک کو لگتا ہے تو سب تک پھیل جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: ویکسینیشن کے بعد بیماری پر لوگوں میں وائرل لوڈ دیگر افراد جتنا ہی ہوتا ہے، تحقیق
انہوں نے کہا کہ اس وبا سے نکلنے کا راستہ ویکسینیشن ہے، وفاقی حکومت نے ویکسین کی خریداری کے لیے تقریباً 2 کھرب روپے مختص کر رکھے ہیں، اربوں روپے کی ویکسین منگوائی جاچکی ہے اور لگانے کا سلسلہ جاری ہے جس کے لیے ملک بھر میں 2 ہزار 600 ویکسینیشن مراکز قائم کیے گئے اور 3 ہزار موبائل یونٹس لوگوں کے گھروں میں جا کر ویکسین لگا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویکسین کی ایک کروڑ خوراکیں 113 دنوں میں لگائی گئیں، 2 کروڑ خوراکیں ہونے میں 28 دن لگے جس کے بعد تین کروڑ تک یہ تعداد صرف 16 روز میں پہنچی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 6 روز کے دوران ویکسینیشن کے عمل میں بہت تیزی آئی اور 50 لاکھ ویکسینز لگائی گئیں اور یومیہ ریکارڈ تعداد میں ویکسین لگائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ این سی او سی کے نظام میں وفاق کے علاوہ صوبے بھی شراکت دار ہیں اور 15 ماہ سے یہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسے اسی طرح رہنے دیا جائے اور ویکسینیشن کی وجہ سے اس کی مرکزیت اور بھی ضروری ہوگئی ہے کیوں کہ لوگوں کو ترغیب دینی ہے، ویکسین خریدنی، تقسیم کرنا اور اسے ویکسینیشن سینٹرز کے ذریعے لگوانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ نے لاک ڈاؤن پر وفاق کو اعتماد میں نہیں لیا، گورنر سندھ
اسد عمر نے کہا کہ ویکسینیشن کا عمل شروع ہوئے 6 ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے اس دوران اتنے پیچیدہ سپلائی چین کے ہوتے ہوئے صرف 3 یا 4 دن کا عرصہ آیا تھا جس کے دوران ویکسین کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے علاوہ اتنی بڑی تعداد میں ویکسین لگنے کے باوجود کہیں کمی نہیں ہوئی جس کی وجہ مرکزی منصوبہ بندی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر تمام تر پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مرکزی سطح پر فیصلے نہ کیے جائیں تو عوام کے لیے مشکلات ہوتی ہیں انہیں گھنٹوں ویکسینیشن سینٹرز پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وبا نہ صوبوں کی سرحد دیکھتی ہے نہ ممالک کی، اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ ایک مرکز پر فیصلے کیے جائیں، این سی او سی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ پلیٹ فارم ایک ہی نظر سے پورے پاکستان کو دیکھتا ہے، اگر اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو کامیابی حاصل ہوگی۔
وائرس کی چوتھی لہر سے نظام صحت پر دباؤ واضح ہے، ڈاکٹر فیصل سلطان
بعد ازاں پریس کانفرنس سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ہفتے تک یومیہ 2 سے ڈھائی ہزار کیسز رپورٹ ہورہے تھے اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران یہ تعداد 5 ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ کیسز کے مثبت آنے کی شرح 8.8 ہوگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ میں لگائے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان، ڈبل سواری پر پابندی ختم
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران ہسپتالوں میں کووِڈ مریضوں کے داخلے کی تعداد 480 سے 500 تک پہنچ گئی ہے اور تشویشناک مریضوں کی تعداد 3 ہزار 200 کے قریب ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا کہ ہم کورونا وائرس کی چوتھی لہر سے گزر رہے ہیں جس سے صحت کے نظام پر پڑنے والا دباؤ واضح ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر کراچی ہے لیکن دیگر شہروں اسلام آباد، ایبٹ آباد میں بھی کچھ ایسی صورت حال نظر آرہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ چند روز میں قومی قیادت کے ساتھ مشاورت کر کے مستقل کے حوالے سے گزارشات اور سفارشات کی جائیں گی تا کہ اس وبا کا رخ موڑا جاسکے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہے کہ اگر کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہو تو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ 10 گنا کم ہوجاتا ہے۔