لائف اسٹائل

ایک پاکستانی کی راہول کے گمشدہ بٹوے کو واپس لوٹانے کی حیران کن داستان

پاکستانی نوجوان کو لندن میں ایک بھارتی شہری راہول کا بٹوا ملا اور اس نے ڈرامائی انداز میں اسے تلاش کیا۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت س کسی اجنبی کو تلاش کرنا بہت آسان ہے؟ تو جان لیں کہ ایسا ضروری نہیں کیونکہ کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان سائٹس کو استعمال نہیں کرتے۔

ایسا ہی کچھ ایک پاکستانی نوجوان کے ساتھ ہوا جس کو لندن میں ایک بھارتی شہری راہول کا بٹوا ملا اور اس نے ڈرامائی انداز میں اسے تلاش کیا۔

اس کا آغاز اس وقت ہوا جب لاہور سے تعلق رکھنے والے غازی تیمور نے ایک اچھے شہری کی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بٹوے کو واپس کرنے کے لیے راہول کی بولی وڈ انداز سے تلاش شروع کی۔

غازی تیمور نے ٹوئٹر پر اس بٹوے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے مالک کو تلاش کررہے ہیں اور وعدہ کیا کہ اس حوالے سے وہ آن لائن صارفین کو آگاہ رکھیں گے۔

آن لائن صارفین کو شروع میں لگا کہ یہ کوئی فلمی طرز کا مذاق ہے۔

غازی تیمور نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا تھا 'لوگوں ابھی مجھے ایک بٹوا ملا ہے، اس میں موجود بینک کارڈ سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ Rahul R****** کا ہے، اب راہول کی تلاش کا وقت ہے'۔

تیمور نے بٹوے کو مالک تک پہنچانے کا عزم کیا مگر بظاہر راہول فیس بک یا انسٹاگرام پر موجود نہیں 'کوئی Rahul R****** فیس بک یا انسٹاگرام پر نہیں، یعنی کوئی سوشل میڈیا نہیں'۔

تاہم غازی تیمور نے ہمت نہیں ہاری، کیونکہ گوگل سب کچھ جانتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ نہیں جانتا۔

تیمور کے ایک اور ٹوئٹ کے مطابق 'ایک گوگل امیج سرچ سے عندیہ ملتا ہے کہ Rahul R****** گجرات، بھارت میں مقیم ہے، مگر مجھے نہیں لگتا یہ وہی ہے، آپ کی تجاویز کی ضرورت ہے'۔

بعد ازاں تیمور نے لنکڈن پر تلاش میں ایک راہول کو دریافت کیا جو لندن میں کام کرتا تھا، مگر اس کا پروفائل لاک تھا تو میسج بھیجنا ممکن نہیں تھا۔

اگر آپ کا خیال ہے کہ اس کے بعد راہول کی تلاش آسان ہوگئی تو ایسا نہیں ہوا، ایسی صورتحال میں عام لوگ تو شکست مان لیتے ہیں، مگر تیمور نے اپنی تلاش کو نہیں چھوڑا اور راہول کے دفتر کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔

تیمور کے مطابق 'لنکڈن کے مطابق راہول ایک برطانوی فود اینڈ بیوریج کمپنی نے کام کرتا ہے، میں اس کے ہیڈآفس پر کال کرنے جارہا ہوہں، گوگل میپس پر اس کے ہیڈآفس کو تلاش کررہا ہوں'۔

مگر حیران کن طور پر کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر پتا نہیں دیا اور نہ ہی کسٹمر سروس ہیلپ لائن، جس سے معاملہ مزید الجھ گیا، جس کے بعد تیمور نے کمپنیز ہاؤس ویب سائٹ پر جانے کا فیصلہ کیا۔

وہاں راہول کے دفتر کا پتا چل گیا اور تیمور کے مطابق 'انجلی کے انداز سے اب اس کے ہیڈآفس جارہا ہوں، بہتر ہوگا اگر اس نے اپنے بینک کارڈز منسوخ نہ کرائے ہوں، راہول میں آرہا ہوں'۔

آخرکار تیمور اس دفتر تک پہنچ گیا اور تیمور نے لکھا 'میں ہیڈ آفس کے باہر ہوں، راہول میں آگیا'۔

اور آخرکار تیمور نے راہول کو تلاش کرلیا جو اس کمپنی کے فنانس منیجر تھے، وہ بٹوے کو دیکھ کر شاک رہ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کم از کم غازی تیمور نے اپنے ٹوئٹ میں یہی بتایا۔

ٹوئٹر پر اپنی پوسٹس پر ہزاروں لائیکس حاصل کرنے والے تیمور کے سفر کو بہت سراہا گیا، جس کی وجہ اس کے ڈرامائی نشیب و فراز نہیں بلکہ پاکستان کی بہترین نمائندگی کرنا تھا۔

آخر میں تیمور نے سب کے پیار کا شکریہ ادا کیا 'یہ ٹائپ کرتے ہوئے آنکھوں میں کچھ آنسو ہیں مگر آپ سب کی محبت اور مہربانی پر شکرگزار ہوں، گزشتہ ایک برس ہم سب کے لیے بہت سخت تھا، اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اچھے کام سے دنیا کو زیادہ بہتر مقام بنایا جاسکتا ہے'۔

کورونا وائرس کو مختلف ممالک سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟

خونخوار وہیل شارک مچھلی سے اپنے بھائیوں کا بدلہ لینے والا مورڑو

کووڈ کی ابتدائی علامات ہر عمر کے گروپس میں مختلف ہوسکتی ہیں، تحقیق