پاکستان بلیک آؤٹ سے بچنے کے لیے مہنگے داموں ایل این جی خریدنے پر مجبور
پاکستان کا مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی قیمتیں کم ہونے کا اندازہ غلط ثابت ہوا جس سے ملک کو بجلی گھروں کے ایندھن کی فراہمی یا بلیک آؤٹ سے بچاؤ کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مہنگے داموں پر ادائیگی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایل این جی نے رواں ہفتے 15 ڈالر فی برطانوی تھرمل یونٹ (بی ٹی یو) میں ستمبر کی ترسیل کے لیے چار کارگو خریدے ہیں جو اس معاملے سے واقف ذرائع کے مطابق 2015 میں ملک میں درآمدات کے آغاز کے بعد سب سے مہنگے ہیں۔
درآمد کنندہ نے ستمبر کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں بُک کیے گئے کارگوز کے ایک ٹینڈر کو اس اُمید کے ساتھ ختم کردیا تھا کہ قیمتیں کم ہوں گی۔
مزید پڑھیں: ایل این جی کی ایشین اسپاٹ پرائسز 6 ماہ کی بلند ترین سطح پر
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے ان کارگو کے اصل صارف ہوں گے جس کے بغیر یہ خطرہ تھا کہ اس ملک میں مناسب مقدار میں بجلی نہیں ہوگی۔
اعلیٰ اخراجات توانائی کی قیمت میں اضافے کے بغیر بجٹ پر ایک دباؤ پیدا کریں گے جس کی وجہ سے جون میں درآمدی لاگت ریکارڈ سطح تک پہنچ جائے گی۔
قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قدرتی گیس کی عالمی سطح پر فراہمی میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ درآمد کنندگان آسانی سے دستیاب ایندھن کی محدود مقدار کی وجہ سے خریداری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
یورپین بینچ مارک، ڈچ گیس کی ریکارڈ سطح پر تجارت ہورہی ہے کیونکہ خطے کے ممالک اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایل این جی اسپاٹ مارکیٹ میں پاکستان کو سرد مہری کا سامنا
مہنگی قیمتیں پاکستان کے لیے ایک دھچکا ہیں جس نے دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر ایل این جی کی درآمد کی حکمت عملی کو اس بنیاد پر تبدیل کیا کہ مستقبل قریب میں ایندھن وافر مقدار میں دستیاب اور سستی ہوگی جیسا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہورہا تھا۔
رواں سال اس میں بدلاؤ آیا ہے اور بلومبرگ کے حساب کتاب کے مطابق ایشین ایل این جی کے لیے موجودہ قیمت 10 سال کی اوسط قیمت سے تقریباً 67 فیصد سے زیادہ پر تجارت ہورہی ہے۔
جہاں گھریلو صارفین فی الحال درآمدی گیس کی ہنگامہ خیز قیمتوں سے محفوظ ہیں، اسلام آباد میں حکومت ان اضافی قیمتوں میں سے کچھ ضوابط کو تبدیل کرنے پر غور کررہی ہے۔
وزارت توانائی نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔