طورخم کے اُس طرف: کابل کے پہلے سفر کا دوسرا حصہ
یہ 12 جولائی 1978ء کا دن تھا، جب میں پشاور سے جلال آباد 2 گھنٹے میں اور پھر اگلے 3 گھنٹے بعد کابل پہنچا تھا۔ اس سفر سے متعلق کچھ اہم باتیں تو گزشتہ بلاگ میں کرچکا ہوں، لیکن افغان صدر کے انٹرویو سے متعلق یادوں کا ذکر اس تحریر میں کیا جائے گا۔
اب تو یہ سب ایک خواب لگتا ہے کہ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکمرانی کے ثبات میں یہ ہمت و جرأت کیسے آگئی کہ صحافت کا ایک طالبِ علم کراچی سے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتا ہوا ڈیورنڈ لائن سے گزر کر کابل پہنچتا ہے اور پاکستانی نہیں، جی ہاں پہلے غیر ملکی صحافی کی حیثیت سے اس وقت تختِ کابل پر بیٹھے نور محمد ترہ کئی سے انٹرویو بھی کرتا ہے جو اس وقت افغان حکومت کے سرکاری ترجمان کابل ٹائم میں سرورق پر 4 کالمی تصویر کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔
کابل سے واپسی پر جب ایک پشاوری کامریڈ مجھے یہ اخبار دکھاتے ہیں جو باقاعدگی سے ان دنوں پشاور آتا تھا تو ایک عجیب سرشاری کے ساتھ خوف بھی آیا کہ جنرل ضیا الحق کی مارشلائی حکومت کی کڑی نظریں ڈیورنڈ لائن پر تھیں۔ مگر جن دنوں یہ انٹرویو شائع ہوا ان دنوں فوجی حکومت کی ساری توجہ 'ذوالفقار علی بھٹو' کو پھانسی چڑھانے اور جیالوں کو پکڑنے اور کوڑے مارنے پر تھی، جس کے سبب ہماری اس کاوش پر زیادہ توجہ نہیں گئی۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس وقت تک پاکستان میں باقاعدہ کراچی میں افغان قونصل خانہ بھی تھا جس کے قونصل جنرل کوچئی نام کے ایک سفارتکار تھے جنہوں نے ہمیں 15 دن کی آمد و رفت کا ویزہ دیا تھا۔ ہمارے نئے نویلے پاسپورٹ پر کسی بھی غیر ملک کی یہ پہلی مہر تھی۔ پشاور اور کابل کے درمیاں باقاعدہ روزانہ بسیں چلتی تھیں۔
خیر، کابل پہنچنے کے دوسرے دن جمیل ہوٹل، جو ایک پاکستانی کا تھا، وہاں سے بذریعہ فون کابل میں جلا وطن اجمل خٹک کو ٹیلی فون کیا۔ اجمل خٹک شہر سے دُور مدرسہ حبیبیہ کے قریب ایک بنگلے میں رہائش پذیر تھے۔
خٹک صاحب کے سالارِ خاص'تور لالہ' نے فون اٹھایا اور ایک بس سے دوسرے اسٹاپ پر اترنے اور پھر دوسری بس سے گھر پہنچنے کا راستہ بتایا۔ شام کے پہلے پہر میں اجمل خٹک کے گھر پہنچے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہیں ہمارے نوجوان دانشور صوفی جمعہ سے بھی ملاقات ہوئی جن کی حال ہی میں ’فریب ناتمام‘ کے نام سے کتاب میں ایسے ایسے انکشافات کیے گئے ہیں کہ 'دانتوں تلے انگلیاں' چیخ اٹھتی ہیں۔
رات گئے تک ایک طویل نشست کے دوران صوفی جمعہ ہمیں خبر دیتے ہیں کہ، 'آپ کا افغان صدر نور محمد ترہ کئی سے انٹرویو کا اہتمام کررہے ہیں، تیار رہیے گا۔ کل کسی بھی وقت آپ کو ہوٹل میں کال آجائے گی'۔ ہماری صحافت کو اس وقت تک جمعہ جمعہ آٹھ دن تو نہیں مگر سال دو ہی ہوئے تھے اور اس میں بھی زیادہ وقت پریس کلب میں 'زندہ باد مردہ باد' میں گزرتا۔ ہمارے علم میں یہ قطعی نہیں تھا کہ کسی سربراہِ مملکت سے انٹرویو کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ 'ٹائی کوٹ' پہنے ہوں۔
ہم تو 2 پتلون شرٹ بیگ میں لے کر عزم سفر ہو لیے تھے کہ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ افغان صدر سے انٹرویو کرانے کے لیے جو پروٹوکول افسر آئے انہوں نے اشارے سے ہمیں تنبیہہ کی کہ کوٹ کے ساتھ ٹائی ضروری ہے۔ خیر اتنا عقل و ہوش ضرور تھا کہ انہیں چائے کی پیشکش کرکے نیچے جاکر لنڈا کی ایک دکان سے کوٹ اور ٹائی سو روپے کرائے میں لی۔
پروٹوکول افسر نے اطمینان کی طائرانہ نظر ڈالی۔ یہ جو ہماری تصویر افغان صدر نور محمد ترہ کئی کے ساتھ ایک سے کئی بار شائع ہوچکی ہے اور جس میں ہم ایک سوٹ پہنے افغان صدر کے ساتھ بیٹھے ہیں، یہ اسی لنڈا کی دین ہے۔
پاکستان میں ہم نے وزیروں اور مشیروں کے ٹھاٹ باٹ اور پروٹوکول دیکھے تھے، لہٰذا افغان صدر کے وسیع و عریض شاہی محل کی راہداریاں گزرتے جب ایک ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھے تو یقین نہ آیا کہ انتہائی خاموشی سے افغان صدر ہم سے اس قدر محبت سے مصافحہ کریں گے۔ نور محمد ترہ کئی بنیادی طور ایک مصنف اور کمیونسٹ پارٹی کے ڈائی ہارڈ کامریڈ تھے۔'دبنگ مسافرے' کے نام سے ان کا ایک ناول بھی شائع ہوا تھا۔ آدھے گھنٹے کی ملاقات کے بعد رخصت ہوا۔ اس وقت میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ سال دو بعد ان کے نائب حفیظ اللہ امین انہیں اتنی سفاکی سے قتل کردیں گے۔
میرا یہ علم نہ مقام مگر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر اپریل 1978ء میں ثور انقلاب لانے والی ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کی قیادت دشمنی کی حد تک ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتی اور نور محمد ترہ کئی کے بعد حفیظ اللّٰہ امین اور ان کے ساتھی نہ مارے جاتے تو شاید ان کے بعد بننے والے صدر ببرک کارمل کو روسی ٹینکوں پر کابل کے تخت پر بٹھانے کی پختہ کار سویت کمیونسٹ پارٹی 'ہمالیہ' سے اونچی غلطی نہ کرتی۔
تاریخ میں جھانکنا ایک خشک و طویل موضوع ہے۔ کوشش کروں گا کہ بہت گہرائی میں نہ جاؤں مگر بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں ہمارے دفاعی اور افغان امور کے ماہرین کو تبصرے اور تجزیے اسکرینوں پر کرتے دیکھتا اور سنتا ہوں تو 'رگِ صحافت' پھڑک اٹھتی ہے۔ افغانستان ایک قبائلی اور مذہبی ملک ضرور رہا مگر معذرت کے ساتھ اس پر کبھی 'ملّا' (معروف اصطلاح) نے حکومت نہیں کی۔
افغانستان کی جدید تاریخ میں بہت پیچھے نہیں جانا چاہتا مگر یہ امیر حبیب اللہ تھا جس نے کابل پر 18 سال حکومت کی، اور اس کو قتل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا بھائی سردار نواب اللہ خان تھا جو اس وقت جلال آباد میں تھا۔ مگر امیر حبیب اللہ کے تیسرے بیٹے امیر امان اللہ خان نے کابل میں 28 فروری کو اپنی بادشاہت کا اعلان کرکے تختِ کابل کی باگ ڈور سنبھال لی۔ امان اللہ خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے برٹش راج سے افغانستان کی آزادی کا اعلان بھی کردیا۔
امیر امان اللہ نے 10 سال حکمرانی کی۔ امیر امان اللہ ترکی کے روشن خیال حکمران مصطفیٰ کمال سے بہت متاثر تھا مگر ترک اور افغان معاشرے میں بہت فرق تھا۔ افغان معاشرے میں پسماندگی کے ساتھ مذہب بھی غالب تھا جس کے سبب انگریزوں کے لیے بڑا آسان تھا کہ امیر امان اللہ خان کے مخالفین قبائلی سرداروں کو عسکری مالی امداد دے کر کابل پر دوبارہ قبضہ کرلیں کہ اس پورے خطے پر حکمرانی کے لیے برطانوی حکمرانوں کو تختِ کابل پر اپنا ایک ٹاؤٹ حکمران چاہیے تھا۔ یہ لیجیے بھٹکتا ہوا کتنا آگے بڑھ گیا مگر آج کے 'افغانستان' کی صورتحال جاننے کے لیے 1929ء سے 1933ء تک محمد نادر شاہ اور 1933ء سے 1973ء تک ظاہر شاہ اور پھر سردار داؤد کے دورِ حکمرانی پر سرسری ہی سہی نظر ڈالنی ضرور ہے۔
سردار داؤد کے دورِ حکومت میں روسیوں کا عمل دخل سویلین اور پھر عسکری اداروں میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ ہزاروں افغان فوجیوں کی تربیت ماسکو میں ہی ہوئی تھی اور اسی دوران 1964ء میں قائم ہونے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی جو روسی کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ اثر تھی، کابل کی حد تک ایک مؤثر عوامی قوت بن چکی تھی۔ مگر دوسری جانب اسلام آباد میں بیٹھے جنرل ضیا الحق امریکا کے گریٹ گیم کے کپتان بن کر اس کھیل کا آغاز کردیتے ہیں جس سے ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف اور اُس طرف ساری دنیا سے آنے والے جنگجوں جدید ہتھیاروں سے لیس ڈالر سے بھرے تھیلے لیے ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔
70ء اور 80ء بلکہ 90ء کی دہائی کی افغان جنگ سامنے کی تاریخ ہے۔ 87ء میں ڈاکٹر نجیب کے آنے کے بعد دسمبر 88ء میں کابل اور اس کے اطراف جنگ زدہ علاقوں میں سکون آنے لگا کہ اسلام آباد میں اقتدار میں آنے والی بے نظیر کی حکومت نے آتے ہی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید کو قابو کیا اور پھر یہی وقت تھا جب کابل حکومت کے سفیر نے پیغام دیا کہ 1978ء میں آپ نے اکیلے سفر کیا تھا، مگر اب ایک گروپ کو لے کر آئیں اور چشم دید ہوں کہ یہاں کس کی حکومت ہے۔
کراچی پریس کلب کے صدر عبدالحمید چھاپرا نے ہمارے صحافتی قائد منہاج برنا کے مشورے سے سینیئر صحافیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا جس میں ممتاز صحافی حسن عابدی، محمود شام، جی این مغل، زاہدہ حنا اور نثار چنا شامل تھے۔ کابل جانے کے لیے محفوظ راستہ بذریعہ دلی تھا کیونکہ اس وقت تک طورخم اور چمن بارڈر آمد و رفت کے لیے بند تھے۔ پریس کلب کے سیکریٹری کی حیثیت سے ہمارا اتنا اعتبار ہوگیا تھا کہ پریس کلب میں پاسپورٹ پر کابل دہلی کے ویزے لگ کر آگئے۔ یوں کابل نے ہماری دلی کی بھی سیر کرا دی وہی دلی جس کے لیے میر تقی میر نے کہا تھا کہ:
اپنی پگڑی سنبھالیے گا میرؔ
اور بستی نہیں یہ دلّی ہے
اچھی طرح یاد ہے مہینہ جولائی اور سال 1989ء تھا۔ کابل ایئرپورٹ پر وزارتِ اطلاعات کے سینیئر ارکان نے استقبال کیا اور آدھے گھنٹے باتیں کیں۔ ایئرپورٹ سے انٹر کانٹینٹل ہوٹل پہنچے، وہاں کراچی کی PC والی تو رونق نہیں تھی مگر شام ڈھلتے ہی ایسی محفل سجی کہ لگتا ہی نہ تھا کہ ہم اس جنگ زدہ افغانستان میں ہیں جسے 4 جانب افغان عربی جنگجوؤں نے گھیرا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔