چین نامہ: چین کی سیاحت دیوارِِ چین کے بغیر ادھوری ہے (دسویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
چین کی سیاحت دیوارِ چین کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی ہے۔ آپ اگر خود وہاں نہ جائیں تو چینی پکڑ کر لے جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ ان کے لے جانے کا انتظار کیا جائے کیونکہ وہ آپ کو دیوارِ چین دیکھے بغیر ہرگز یہاں سے جانے نہیں دیں گے تو خود سے ٹرپ پر پیسے خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟
ہم جب چین آئے تو صرف دیوارِ چین کا نام ہی جانتے تھے۔ پہلا ٹرپ وہیں کا کرنا تھا پر کیسے جائیں، یہ نہیں پتا تھا۔ اِدھر اُدھر سے پوچھا تو پتا چلا کہ یونیورسٹی ہر سمسٹر میں بیرونِ ممالک سے آئے ہوئے طالب علموں کو دیوارِ چین ضرور لے کر جاتی ہے اور وہ بھی بالکل مفت۔ مہینے بعد ٹرپ کا نوٹس بھی لگ گیا۔ ہم نے فوراً نام درج کروا دیا۔ یوں اگلے ویک اینڈ پر ہم نے دنیا کا وہ عجوبہ دیکھ لیا جس کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے چلے آرہے تھے۔
اگرچہ یہ دیوار چین کے شمال میں پھیلی ہوئی ہے لیکن سیاحوں کو دیوارِ چین دیکھنے کے لیے بیجینگ آنا پڑتا ہے۔ دیوار کے مختلف حصے سیاحت کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ان میں بڈولنگ اور میوٹیانو زیادہ مشہور ہے۔ ہماری یونیورسٹی کا ٹرپ میوٹیانو پر ہوتا ہے۔ اس کی چڑھائی آسان ہے اور یہاں مشہور ریسٹورینٹس، کافی شاپس اور سوینئیر شاپس بھی موجود ہیں۔
جو لوگ خود سے دیوارِ چین پر جانا چاہیں وہ ٹیکسی کے ذریعے وہاں جاسکتے ہیں۔ اس سے سستا ذریعہ چاہیے ہو تو اس طرف جاتی پبلک بسوں اور سب وے کا انتخاب کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں کافی تھکن ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی ٹؤر کمپنیاں بھی سیاحوں کو روزانہ سیر کے لیے لے جاتی ہیں۔ یہ ٹرپ فی بندہ 100 یوآن میں پڑتا ہے۔ کمپنی مخصوص مقامات سے لوگوں کو پِک کرتی ہے اور دیوارِ چین تک لے جاتی ہے۔ کمپنی سب کو ٹکٹ پکڑا کر سیڑھیوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہے۔ ساتھ واپسی کا وقت بتا دیتی ہے۔ سب کو اس وقت تک دیوار پر اوپر جاکر، گھوم پھر کر، تصاویر لے کر، واپس نیچے آنا ہوتا ہے۔
اوپر جانے کے 2 ذریعے ہیں۔ ایک تو سیڑھیاں ہیں۔ دوسرا کیبل کار۔ یونیورسٹی ہمیں سیڑھیوں سے لے کر جاتی ہے۔ سیڑھیوں سے پہلے ایک بیریئر لگا ہوا ہے جہاں داخلی ٹکٹ دیکھا جاتا ہے۔ آگے بس سیڑھیاں ہیں۔ اللہ کا نام لیں اور چڑھنا شروع کردیں۔
15 سے 20 سیڑھیوں کے بعد زمین کا ہموار قطعہ آتا ہے۔ اس کے بعد پھر سے سیڑھیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ کئی جگہوں پر لوگوں کے آرام کے لیے اسٹاپ بھی بنائے گئے ہیں۔ سانس پھول جائے تو وہاں بیٹھ جائیں۔ پانی پئیں۔ حواس بحال ہوں تو دوبارہ سیڑھیاں چڑھنا شروع کردیں۔ ہمارے تجربے کے مطابق اس چڑھائی میں قریباً 22 منٹ لگتے ہیں اور ہاں ہم نے اس دوران 2 سے 3 بار رُک کر آرام بھی کیا تھا۔
کیبل کار بالائی حصے سے ذرا نیچے اتارتی ہے۔ اس کے بعد 8 سے 10 سیڑھیاں ہی رہ جاتی ہیں جو بڑی آسانی سے عبور کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے والدین جب دیوارِ چین کی سیر کو آئے تو ہم انہیں کیبل کار سے ہی اوپر لے کر گئے تھے۔ کیبل کار کا ٹکٹ علیحدہ سے لینا پڑتا ہے۔ اسی ٹکٹ پر واپس بھی آیا جاسکتا ہے۔ ہمارے والدین انہی سیڑھیوں میں اتنا تھک گئے تھے کہ اوپر جاکر سب سے پہلے انہوں نے جو کام کیا وہ سستانے کا تھا۔ اس دوران دو، چار چینیوں نے ان کے ساتھ تصاویر بھی اتروا لیں۔
ہم نے محسوس کیا کہ چینی ہمارے والد کو بہت غور سے دیکھتے تھے۔ ایک تو ان کا 6 فٹ کا قد، اس پر بھاری جسامت، شلوار قیمض اور اس کے ساتھ سفید داڑھی۔ ہم جہاں جاتے چینی ان کے پاس آکر تصاویر ضرور اترواتے تھے۔ یہ کافی حیران کن تھا کیونکہ بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں کے لوگ غیر ملکیوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ تاہم کوئی بالکل مختلف نظر آ رہا ہو تو وہ اسے مڑ مڑ کر ضرور دیکھتے ہیں۔
ایک اہم مشورہ
دیوارِ چین پر جانے سے پہلے موسمی صورتحال کا جائزہ لینا مت بھولیے۔ ہم نے پہلے 3 ٹرپس بس ایک تصویر کی خاطر کیے تھے۔ ایک ایسی تصویر جس میں ہمارے پیچھے بل کھاتی ہوئی دیوارِ چین نظر آ رہی ہو۔ پہلی 2 مرتبہ تو موسم آلودہ تھا۔ تصویر میں دیوار نظر ہی نہیں آتی تھی۔ تیسری بار جاکر اچھا موسم ملا۔ اس تصویر کے لیے آپ کو دیوار پر اوپر نیچے جاکر مناسب مقام ڈھونڈنا ہوگا اور ایک ساتھی درکار ہوگا جو آپ کی تصویر آپ کی مرضی کے مطابق بنا سکے۔
دیوارِ چین جانے کا بہترین وقت کونسا ہے؟
دیوارِ چین پر جانے کا بہترین وقت اپریل سے جون کے درمیان ہے اور اس کی وجہ وہی موسم ہے۔ ان مہینوں میں دیوار کے قریب درخت دیکھنے میں بھی اچھے لگتے ہیں اور تصاویر میں بھی بھلے لگتے ہیں۔ اکتوبر اور نومبر بھی بہترین وقت ہے۔ اس کے بعد برف باری شروع ہوجاتی ہے جس کا اپنا مزا ہے لیکن اتنی ٹھنڈ میں وہاں جانا مشکل ہوسکتا ہے۔ اسپرنگ فیسٹول اور اکتوبر کے پہلے ہفتے کے دوران دیوارِ چین پر جانے سے گریز کریں کیونکہ ان دنوں وہاں رش بڑھ جاتا ہے۔
تحریم عظیم چین کے دارالحکومت بیجنگ میں موجود کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔