یہ بات برطانوی حکومت کے ایک تحقیقی تجزیے میں دریافت کی گئی۔
برطانیہ کے آفس فار نیشنل اسٹیٹکس کی اس تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پہلی بار بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ری انفیکششن کی صورت میں یہ وائرل لوڈ بہت کم ہوتا ہے۔
آسان الفاظ میں جسم میں وائرس کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی بیماری کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ رہنے کا امکان ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ مجموعی طور پر کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
اسی طرح ری انفیکشن سے متاثر افراد میں ٹھوس مثبت ٹیسٹ کی شرح اس سے بھی زیادہ کم ہوتی ہے کیونکہ جسم میں اتنا وائرس ہی نہیں ہوتا کہ ٹیسٹ میں اسے پکڑا جاسکے۔
تحقیق کے دوران برطانیہ میں 26 اپریل 2020 سے 17 جولائی 2021 تک کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کی شرح کا جائزہ لیا گیا تھا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ری انفیکشن کا خطرہ ہر ایک لاکھ میں سے 12.8 افراد کو ہوتا ہے جبکہ ٹھوس مثبت ٹیسٹ کی شرح ہر ایک لاکھ میں 3.1 دریافت کی گئی۔
برطانوی تحقیق کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب جولائی 2021 میں ہی امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کو بیماری کے خلاف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
یہ اب تک کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں 254 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔
ان مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور بیماری کے 250 دن یا 8 مہینے بعد بھی ان میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مدافعتی ردعمل کو دیرپا اور ٹھوس دریافت کیا گیا۔
محققین نے کہا کہ نتائج سے کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد تحفظ کا عندیہ ملتا ہے اور ہم نے ایسے مدافعتی ردعمل کے مرحلے کو دریافت کیا جس کا تسلسل 8 ماہ بعد بھی برقرار تھا۔